KIYA 1 BAKRA TAMAM GHAR WALON KI TARAF SE KAFI HAI

 ہر صاحبِ نصاب شخص پر اپنے حصہ کی قربانی کرنا واجب ہے، ایک قربانی پوری فیملی کی طرف سے نہیں ہو سکتی، ہاں اونٹ گائے اور بھینس میں سات حصے ہو سکتے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک بکری سارے گھر والوں کی طرف سے قربان کر دی جائے تو سب کی قربانی ہو جاتی ہے ایسا نہیں ہے۔ 


ابو داؤد شریف میں ہے: ” عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورُ عَنْ سَبْعَةٍ “.


ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گائے سات افراد کی طرف سے ہے اور اونٹ ( بھی ) سات افراد کی طرف سے ہے۔

( سنن أبي داود، جلد 03، صفحہ 98، مطبوعہ مکتبۃ العصریہ بیروت )


سنن ابن ماجہ میں ہے: ” عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، أتاه رجل فقال: إن علي بدنة، وأنا موسر بها، ولا أجدها، فأشتريها «فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يبتاع، سبع شياه، فيذبحهن» “.


ترجمہ: حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ پاک آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: مجھ پر ایک اونٹ کی قربانی کرنا لازم ہے، اور میں یہ کر بھی سکتا ہوں لیکن مجھے کوئی اونٹ نہیں مل رہا کہ میں اسے خرید سکوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم ارشاد فرمایا کہ وہ سات بکریاں خرید لے اور انہیں ذبح کر دے۔ ( سنن ابن ماجہ، جلد 02، صفحہ 1048، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ).


( اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ایک اونٹ سات بکریوں کے برابر ہے اور ماقبل میں ابوداؤد شریف کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اونٹ میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں تو اونٹ کے ایک حصہ کے مقابلے میں ایک بکری ہوئی اور اونٹ کے سات حصوں میں سے ایک ایک حصے کی قربانی ایک ایک ہی شخص کی طرف سے ہو سکتی ہے تو ایک بکری کی قربانی بھی ایک ہی فرد کی طرف سے ہو گی۔ نیز اگر بکری کی قربانی میں شرکت ہوتی تو جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اونٹ اور گائے کے متعلق ہے کہ ان کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں یوں ہی بکری کے متعلق بھی کوئی فرمان ہوتا کہ بکری سات لو گوں کی طرف سے ہے حالانکہ ایسی کوئی روایت نہیں ہے ( ملخصاً سنن ابی داؤد حاشیہ، صفحہ 226، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ).


المحیط البرھانی میں ہے: ” الشاة لا تجزىء إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة “.


ترجمہ:  ( قربانی میں ) ایک بکری صرف ایک کو کفایت کرے گی، اگرچہ بہت بڑی ہو۔


( المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی ، جلد 06، صفحہ 98، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ).


علامہ ملی علی قاری ایک حدیثِ مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں: ” الغنم الواحد لا يكفي عن اثنين فصاعدا “


ترجمہ: ( قربانی میں ) ایک بکری دو یا اس سے زیادہ لوگوں کو کفایت نہیں کرے گی ( یعنی صرف ایک کو کفایت کرے گی )۔ ( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 03، صفحہ 1079، مطبوعہ دار الفکر بیروت لبنان ).


ملک العلماء امام ابو بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصناع میں فرماتے ہیں: ” وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما “.


ترجمہ: بہرِ حال قربانی کے جانور کی مقدار یہ ہے کہ بکری اور بھیڑ ایک بندے کی طرف سے ہی ہو گی اگرچہ اتنی بڑی اور فربہ ہو کہ قربانی کے لائق دو بکریوں کے برابر ہو جائے۔


( بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب التضحیہ فصل واما محل اقامۃ الواجب، جلد 05، صفحہ 70، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).


میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا کہ قربانی ولی کرے تو سب گھروالوں کی طرف سے ہوجائے گی کیونکہ سب اولاد شامل ہے...الخ۔ تو آپ علیہ الرحمہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: ” ایک قربانی نہ سب کی طرف سے ہوسکتی ہے ، نہ سوا مالک نصاب کے کسی اور پر واجب ہے “۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 20، صفحہ 369، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )۔


سنن ابنِ ماجہ میں ہے: ” أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان «إذا أراد أن يضحي، اشترى كبشين عظيمين، سمينين، أقرنين، أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله، بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد، وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم» “.  یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کرنے کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے فربہ، سینگ والے، چتکبرے، خصی مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کی جانب سے لوگوں کے لیے ذبح فرماتے جنھوں نے اللہ تعالی کی توحید اور آپ کی رسالت کی گواہی دی، اور دو سرا خود اپنی جانب سے اور اپنی آل پاک کی جانب سے ذبح فرماتے۔ ( سنن ابن ماجہ، جلد 02، صفحہ 1043، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ).


اسی میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ کیسے قربانی کرتے تھے انھوں نے فرمایا: ” كان الرجل في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، يضحي بالشاة عنه، وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون، ثم تباهى الناس، فصار كما ترى “۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربان کیا کرتا تھا، تو وہ خود ( بھی ) کھاتے تھے اور ( دوسروں کو بھی )  کھلاتے تھے، اس کے بعد وہ دکھاوے اور فخر میں مبتلا گئے اور وہ ہونے لگاجو تم دیکھ رہے ہو۔


بعض لوگ ان احادیثِ مبارکہ سے دلیل پکڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بکری یا مینڈھا سات اشخاص یا فیملی کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ کہنا درست نہیں، کیونکہ ایک بکری کی قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے ہو جائے یہ کہیں سے ثابت نہیں، بلکہ محدثین و فقہاءِ کرام نے اس بات کی صراحت کی یے کہ ایک بکری صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کی جا سکتی ہے پوری فیملی کی طرف سے نہیں۔ ( جیسا کہ اس کے دلائل اوپر گزر چکے ). 


اور حدیثِ مبارکہ میں جو وارد ہے کہ ” ان میں سے ایک اپنی امت کی جانب سے لوگوں کے لیے ذبح فرماتے۔۔۔ “  سے مراد اس مینڈھے کی قربانی کے ثواب میں ساری امت کو شریک کرتے، اور قربانی کے ثواب میں جتنے لوگوں کو چاہیں شریک کر سکتے ہیں۔

چنانچہ سنن ابنِ ماجہ کے حاشیہ میں اس حدیثِ پاک کے تحت ہے: ” و تاویل حدیث الباب انہ صلی اللہ علیہ وسلم اراد اشتراک جمیع امتہ فی الثواب تفضلا منہ علی امتہ “. یعنی باب کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر کرم فرماتے ہوئے ان کو ثواب میں شریک کیا۔

( سنن ابی داؤد حاشیہ انجاح الحاجہ، صفحہ 226، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )۔


ملک العلماء امام ابو بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصناع میں فرماتے ہیں: ” فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته؟ - عليه الصلاة والسلام -.

(فالجواب) أنه - عليه الصلاة والسلام - إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم “۔


ترجمہ:  اگر اعتراض کیا جائے کہ یہ روایت تو موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھوں میں سے ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی اس امت کی طرف سے قربان کیا جس نے قربانی نہ کی، تو کیسے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک بکری اپنی امت کی طرف سے قربان کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ قربانی صرف ثواب پہنچانے کے لیے کی کہ آپ نے اپنی ایک بکری کی قربانی کا ثواب اپنی امت کو عطا فرمادیا، یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سب کو کافی ہو گئی اور ان سے عبادت ( یعنی قربانی) ساقط ہو گئی۔

( بدائع الصنائع، کتاب التضحیہ فصل واما محل اقامۃ الواجب، جلد 5، صفحہ 70، دارالکتب العلمیہ بیروت)۔


امام نووی علیہ الرحمہ شرح مسلم میں تحریر فرماتے ہیں ” واجمعوا على ان الشاة لا يجوز الاشتراك فيها “.


ترجمہ: اس بات پر اجماع ہے کہ بکری کی قربانی میں شریک ہو نا جائز نہیں ہے۔ ( شرح مسلم للنوی، کتاب الج، باب الاشتراک فی الھدی، جلد 01، صفحہ 424 ، مطبوعہ مجلس برکات، مبارک پور )۔


اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ والی حدیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ کوئی قربانی کر کے اپنے گھر والوں کو قربانی کی ادائیگی میں شریک کر لیتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محتاج ہوتا، اسے گوشت کی ضررت ہوتی تو وہ ایک قربانی کرتا اور اپنے گھر والوں کو گوشت میں شریک کر لیتا، خود بھی کھاتا اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا۔ چنانچہ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ اپنی مؤطا میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ والی حدیث نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:  ” کان الرجل يكون محتاجا فيذبح الشاة الواحدة يضحى بها عن نفسہ فیأکل و یطعم اهله فاما شاة واحدة تذبح عن الاثنين او ثلاثة اضحية فهذه لايجزئ ولايجوز شاة الا عن الواحد و هو قول ابي حنيفة والعامة من فقهائنا “.


ترجمہ: اگر کوئی شخص محتاج ہوتا تو بکری اپنی جانب سے قربان کر تا، خود کھاتا اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا، لیکن ایک بکری دو یا تین اشخاص کی طرف سے بطور قربانی ذبح کی جاۓ تو یہ کافی نہیں ہے۔ ایک بکری ( کی قربانی ) صرف ایک شخص کی طرف سے جائز ہے۔ یہی قول امام ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاءِ کرام علیہم الرضوان کا ہے۔ ( موطا امام محمد، کتاب الضحایا، باب ما یجزئ من الضحايا عن اكثر من واحد، صفحہ 282، مطبوعہ مجلس بر کات، مبارک پور )۔


حضرت امام زرقانی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:  ” فانما عاب ذلک للمباهاة ولم يمنع ان يفعله على وجه القربة الى الله تعالى، وهو الذي استحبه ابن عمر ان يضحى عن كل من في البيت بشاة شاۃ ‘‘۔


ترجمہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے فخر کرنے کے سبب سے اس پر طعن کیا ہے انھوں نے اللہ تعالی کی عبادت کے طور پر ایک سے زائد بکری قربان کرنے سے نہیں روکا ہے ۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے تو اسے بہتر سمجھا ہے کہ گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے ایک ایک بکری قربان کی جائے۔ ( شرح الزرقانی علی موطا الامام مالک، کتاب الضحايا، الشركة في الضحايا و عن كم تذبح البقرة والبدنۃ، جلد 03، صفحہ 93، مطبوعہ دار الفکر بیروت )۔



واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                

Comments

Popular posts from this blog

Huzoor sallallahu alaihi wasallam ke bare me

allah ta aala naraz ho to kiya hota hai

Nabi aur rasool kise kahte hain