حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر 1
رسول اللہ ﷺ کے اولین جانشین اورخلیفۂ اول کوتاریخ میں ’’ابوبکرصدیق‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے،ابوبکران کی کنیت تھی،جبکہ’’صدیق‘‘لقب تھا، اصل نام ’’عبداللہ‘‘تھا،اسلام سے قبل ان کانام ’’عبدالکعبہ‘‘تھا،قبولِ اسلام کے بعدخودرسول اللہ ﷺ نے ان کانام عبدالکعبہ سے تبدیل کرکے ’’عبداللہ‘‘رکھ دیاتھا۔
بچپن سے ہی ’’عتیق‘‘کے لقب سے بھی مشہورتھے ،جبکہ قبولِ اسلام کے بعدمزیدیہ کہ ایک موقع پررسول اللہ ﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی تھی : أنتَ عَتِیْقُ اللّہِ مِنَ النَّارِ (۱) یعنی’’آپ اللہ کی طرف سے جہنم کی آگ سے آزادکردہ ہیں ‘‘۔
البتہ بعدمیں ’’عتیق‘‘کی بجائے ہمیشہ کیلئے ’’صدیق‘‘کے لقب سے مشہورہوگئے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مکی تھے ، قُرَشی تھے ،مہاجرتھے،قبیلۂ قریش کے معزز خاندان’’بنوتَیم‘‘سے ان کاتعلق تھا،جوکہ مکہ کے مشہورمحلہ’’مسفلہ‘‘میں آبادتھا۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایا تھا۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے والدکانام ’’ابوقحافہ‘‘ جبکہ والدہ کانام ’’سلمیٰ‘‘ تھا،یہ دونوں باہم چچازادتھے،لہٰذاوالداوروالدہ دونوں ہی کی طرف سے آپؓ کاسلسلۂ نسب ساتویں پشت (مُرّہ بن کعب ) پررسول اللہ ﷺ کے سلسلۂ نسب سے جاملتاہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کورسول اللہ ﷺ کے انتہائی مقرب اورخاص ترین ساتھی ہونے کے علاوہ مزیدیہ شرف بھی حاصل تھاکہ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے سسربھی تھے،اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاآپؓ ہی کی صاحبزادی تھیں ۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کویہ خاص شرف اوراعزازبھی حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں مسلسل چارنسلوں کورسول اللہ ﷺ کی صحبت ومعیت کاشرف نصیب ہوا،چنانچہ ان کے والدین بھی صحابی تھے ،یہ خودبھی صحابی تھے،ان کے صاحبزادے عبداللہ اور عبدالرحمن ٗ نیزصاحبزادیاں عائشہ اوراسماء …اورپھرنواسے عبداللہ بن زبیر(رضی اللہ عنہم اجمعین)سبھی رسول اللہ ﷺ کے صحابی تھے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے تقریباً ڈھائی سال بعد ٗاورپھروفات مدینہ میں آپ ﷺ کی وفات کے تقریباًڈھائی سال بعد ہوئی۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جاہلیت اورپھراسلام دونوں ہی زمانوں میں نہایت باوقار اوروضع داررہے،تمدنی ومعاشرتی زندگی میں انہیں ہمیشہ ممتازمقام حاصل رہا، ظہورِ اسلام سے قبل بھی اُس معاشرے میں انہیں ہمیشہ انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، سب اہلِ مکہ اپنے اختلافات اورخاندانی جھگڑوں میں انہیں اپنا ’’ثالث‘‘ مقرر کرتے ، اورپھران کے ہرفیصلے کوبلاچون وچراتسلیم کیاکرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کوجب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نبوت عطاء کی گئی اورآپؐ نے اعلانِ نبوت فرمایا…تب آپؐ کی اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاٗ ودیگر افرادِ خانہ کے بعد ٗسب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے دینِ اسلام قبول کیا، آپ ؐ کی مکمل تصدیق کی ، اوراس موقع پرکوئی دلیل یامعجزہ نہیں مانگا۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاظہورِاسلام سے قبل ہی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت گہراتعلق تھا،دونوں میں بہت قربتیں تھیں ،اورایک دوسرے کے گھرآمدورفت کاسلسلہ رہتاتھا۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتی ملکیت میں قبولِ اسلام کے وقت نقدچالیس ہزاردرہم تھے ،قبولِ اسلام کے بعدانہوں نے اپنی یہ کل پونجی رسول اللہ ﷺ کی خدمت ٗ اوردینِ اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کردی۔
دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں متعددایسے افرادجوکہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ،اوردینِ اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے اپنے مشرک آقاؤں کے ہاتھوں بدترین عذاب اورسختیاں جھیلنے پرمجبورتھے ،انہیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی جیبِ خاص سے نقدرقم اداکرکے ان کے مشرک آقاؤں سے خریدلیا،اورپھراللہ کی خوشنودی کی خاطرانہیں آزادکردیا…قرآن کریم کی درجِ ذیل آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے: {وَسَیُجَنَّبُھَا الأَتْقَیٰ الَّذِي یُؤتِي مَالَہٗ یَتَزَکَّیٰ وَمَا لِأَحَدٍ عِندَہٗ مِنْ نِعمَۃٍ تُجْزَیٰ اِلَّاابْتِغٓائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الأَعلَیٰ وَلَسَوفَ یَرْضَیٰ} (۱) ترجمہ:(اورایساشخص اُس [جہنم]سے دوررکھاجائے گا جوبڑا پرہیزگارہوگا،جوپاکی حاصل کرنے کیلئے اپنامال دیتاہے،کسی کااُس پرکوئی احسان نہیں کہ جس کابدلہ دیاجارہاہو،بلکہ صرف اپنے پروردگاربزرگ وبلندکی رضاچاہنے کیلئے،یقیناوہ [اللہ]عنقریب راضی ہوجائے گا) ۔
مفسرین کے بقول اس آیت کامفہوم اگرچہ عام ہے ،یعنی جوکوئی بھی محض اللہ کی رضامندی وخوشنودی کی خاطر اپنامال خرچ کرے گاوہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا…البتہ بطورخاص اس سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ بھی مقصودہے۔(۱)
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کااُس معاشرے میں کافی اثرورسوخ تھا اورحلقۂ احباب بھی کافی وسیع تھا،لہٰذاانہیں اللہ کی طرف سے ’’ہدایت ‘‘کی شکل میں جوخیرنصیب ہوئی تھی اسے انہوں نے خوداپنی ذات تک محدودرکھنے کی بجائے اس اثرورسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش بھی نہایت سرگرمی اورجذبے کے ساتھ شروع کردی ، چنانچہ ان کی ان دعوتی وتبلیغی کوششوں کے نتیجے میں اُس معاشرے کے متعدد ایسے بڑے بڑے اوربااثر افرادمشرف باسلام ہوگئے جوآگے چل کردینِ اسلام کے بڑے علمبردار اور اس قافلۂ توحیدکے سپہ سالارثابت ہوئے…دینِ اسلام کی نشرواشاعت اورسربلندی کی خاطر جنہوں نے تاریخی خدمات اورناقابلِ فراموش کارنامے انجام دئیے ، ’’عشرہ مبشرہ ‘‘ یعنی وہ دس خوش نصیب ترین حضرات جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا ٗ ان میں سے پانچ حضرات نے آپؓ کی دعوت اور تبلیغی کوششوں کے نتیجے میں ہی دینِ برحق قبول کیاتھا (۲)
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment