ASRE HAZIR ME MUSALMAN KIYA KAREN POST (1)

 عصر حاضر میں مسلمان کیا کریں؟


         رشحات قلم: محمد امثل حسین گلاب مصباحی

        فیض پور، سیتامڑھی ٣٠ جون ٢٠٢١ء


  اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

  شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

        

           ایک خبر کے مطابق آج دنیا کے اندر کم و بیش ایک سو اسی کروڑ مسلمان ہیں، اس لحاظ سے دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ قریباً ستّاون بااختیار اسلامی ممالک ہیں، سب سے زیادہ قدرتی کارخانے اسلامی ریاستوں کے اندر ہیں، سب سے زیادہ پہاڑ، نہر، دریا اور سمندر اسلامی ریاستوں کے اندر ہیں، سب سے اچھی آب و ہوا ان ریاستوں کی ہیں، جو اسلامی ریاستیں ہیں، سب سے زیادہ تحقیقی علم و فن اسلام کے پاس ہے، ان سب کے باوجود مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں، مسلمان جگہ جگہ بےچین اور پریشان ہے، غیر اسلامی ممالک کی کیا تخصیص، اسلامی ریاستوں کے اندر بھی اہل ایمان پرسکون نہیں ہیں، ان کی جان محفوظ نہیں ہے، ان کا مال محفوظ نہیں ہے، ان کے اہل و عیال محفوظ نہیں ہیں، ان کا وقار محفوظ نہیں ہے، ان کا تقدس محفوظ نہیں ہے، ان کا جاہ و منصب محفوظ نہیں ہے، ان کے آپس میں اتحاد نہیں ہے، اتحاد ہے، تو اس میں قوت نہیں ہے، اگر قوت ہے، تو اپنوں کے لیے ہے، اپنوں سے لڑنے کے لیے ہے، اپنوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہے، ان کے معاشی حالات کمزور ہیں، ان کے اقتصادی معاملات کمزور ہیں، ان کی معیشت عملی کمزور ہے، ان کا نظام کمزور ہے، ان کا طرز بند و بست کمزور ہے، ان کا طریقۂ کار اور صلاح کار کمزور ہے، آخر کیوں؟ ان کے اسباب و علل کیا ہیں؟ ان کی تباہی کے وجوہ کیا ہیں؟ ان کی بربادی کی داستانیں کیا ہیں؟ ان کا اتحاد کمزور کیوں ہے؟ ان کے پاس طاقت کیوں نہیں ہے؟ ان کا نظام کمزور کیوں ہے؟ ان کے معاشی حالات کمزور کیوں ہیں؟ مغرب میں یورپ اور امریکہ کی معیشت دیکھیں، دنیا میں ان کی معیشت کا ڈنکا بج رہا ہے، دنیا ان کی طاقت سے کانپ رہی ہے، دنیا ان کے نظام و معیشت عملی کو دیکھ کر حیراں ہے، مشرق میں چین، جاپان اور آسٹریلیا کی معیشت کو دیکھیں، ان کی طاقت و قوت کو دیکھیں، ان کے مضبوط نظام اور بند و بست کو دیکھیں، ان کے طریقۂ کار کو دیکھیں کہ اس نے دنیا کو اپنا فریفتہ اور گرویدہ بنا لیا ہے، شمال میں روس اور جنوب میں جنوبی افریقہ کی طاقت و قوت، ان کے نظام، اور ان کی خوشحال معیشت کو دیکھیں، یہ سب تعمیر و ترقی کے آسمان پر نیر تاباں بن کر جگمگا رہے ہیں، عظیم طاقت و قوت کے کوہ استقامت، مضبوط چٹان اور آہنی دیوار بنے ہوئے ہیں، مجال ہے روس کو کوئی آنکھ دکھائے؟ دم ہے کسی میں جو چین، جاپان اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، مگر اتنی کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود، اس فراوانی کے ساتھ قدرتی وسائل و ذرائع ہونے کے باوجود مسلمان ایسی زبوں حالی کا شکار ہے کہ وہ پستی کی علامت اور پسماندگی اور کمزوری کا نشان بنا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کے کئی وجوہ ہیں، پر مسلمانوں کی کمزوری اور پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے نظام حق کو چھوڑ دیا ہے، انھوں نے اپنے مقصد سے نظر پھیر لیا ہے، انھوں نے اپنے نصب العین سے رخ موڑ لیا ہے، انھوں نے اسلام کے بتائے ہوئے طریقۂ کار کو اپنا آئیڈیل نہیں بنایا ہے، انھوں نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑا ہے، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ انھوں نے ذکر حق سے گویا چہرہ پھیر لیا ہے۔ تو جو ایمان والا نظام حق سے منہ پھیرے گا، اس کے پاس کیا طاقت و قوت ہوگی، جو ایمان والا ذکر حق سے منہ موڑے گا، اس کے معاشی حالات کیسے بہتر اور وسیع ہوں گے۔ اللہ تعالی قرآن مجید کے اندر ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا (طہ: ١٢٤) اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگی ہے. تو عظیم الشان طاقت و قوت، عظیم اتحاد و اتفاق، مضبوط بند و بست اور بہتر معیشت کے لیے نظام حق، فکر حق اور ذکر حق کا التزام کرنا ہوگا، ورنہ تباہی و بربادی سے لازمی دوچار ہونا پڑے گا۔

        ارادہ تو یہ تھا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے در پیش مسائل اور ان کے حل پر کچھ روشنی ڈالوں، مگر تحریر کافی طویل ہوجائے گی، اس لیے صرف ملکی سطح پر یعنی اپنے وطن کے اندر اہل اسلام کے در پیش مسائل اور ان کا حل قلمبند کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ان شاء اللہ آئندہ کبھی عالمی مسائل اور ان کے حل پر کچھ رقم کروں گا۔

    

          آج اہل اسلام اپنے ملک کے اندر، اپنے شہر اور اپنی بستی کے اندر کافی پریشان ہیں۔ کبھی کسی ایمان والے کی جان پر جان لیوا حملے ہوتے ہیں، کبھی کسی کی دکان توڑ پھوڑ دی جاتی ہے، کبھی کسی کا مال لوٹ لیا جاتا ہے، کبھی کسی کی عفت اور پارسائی پر حملے ہوتے ہیں، کبھی کسی کو بلا وجہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے، کبھی کسی کو محض شبہ کی بنیاد پر گرفتار کر لیا جاتا ہے، کبھی کسی مسجد کو شہید کردیا جاتا ہے، کبھی کسی مزار کو ڈھا دیا جاتا ہے، کبھی کسی کو بلا وجہ اس کے منصب سے بر طرف کر دیا جاتا ہے، خانقاہوں اور مدارس اسلامیہ کے مسمار کرنے کی بات کی جاتی ہے، اور آگے چلیے، دین اسلام پر حملے ہوتے ہیں، قرآن مقدس پر حملے کیے جاتے ہیں، قرآن پاک کے اوراق جلا دیے جاتے ہیں، خانۂ کعبہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، گنبد خضری کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اسلام کے پیغمبروں کی شان میں نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں، خالق کائنات اللہ رب العزت کی ذات پاک کی طرف غلط چیزوں کی نسبت کی جاتی ہے، اس کی شان اقدس میں توہین آمیز جملے بولے جاتے ہیں، اور آگے چلیے، ظالموں پر کاروائی نہیں کی جاتی، بلکہ مظلوم ایمان والے کو ہی سزا دی جاتی ہے، قاتلوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی، بلکہ مقتول ایمان والے کے اہل و عیال پر ہی قتل کا الزام لگا دیا جاتا ہے، اگر کوئی مسلمان گرفتار ہوا، تو سالوں سال قید و بند کی زندگی گزارتا ہے، سالوں سال اس کے مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی، کوئی ایمان والا لنچنگ کا شکار ہوا، تو سالوں سال اس کے قاتل کی گرفتاری نہیں ہوئی، اگر کبھی کسی کی گرفتاری ہوئی بھی تو اس کے سزا کی کوئی خبر نہیں، اس کے تعذیب کی کوئی اطلاع نہیں، اس طرح کے ایک دو نہیں، ہزاروں واقعات ہیں، ہزاروں حقائق ہیں، کتنے واقعات قلمبند کروں؟ کتنے حقائق تحریر کروں؟ کتنے مجرموں کے نام پیش کروں؟ کتنے قاتلوں کے نام بیان کروں؟ کتنے ظالموں کو بے نقاب کروں؟ کتنے گستاخوں اور بدتمیزوں کا ناپاک چہرہ سامنے لاؤں؟ کتنے زہر اگلنے والوں کو دکھاؤں؟ اسی طرح کتنے مظلوم کا نام پیش کروں؟ کتنے مقتول کا نام پیش کروں؟ کتنے ان بے قصوروں کا نام پیش کروں، جو جیلوں کے اندر ہیں، کتنے ایسے لوگوں کا نام پیش کروں، جو برسوں جیل کے اندر رہے مگر ان کا کوئی جرم نہیں تھا، کتنے ان مسجدوں کے نام پیش کروں جو شہید کر دی گئیں؟ کتنی ان عمارتوں کا پتا لکھوں جو زمیں بوس کر دی گئیں؟ کتنے ایسے لوگوں کے نام پیش کروں جو مجرم معلن ہیں، مگر ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے؟ کتنے ایسے لوگوں کا نام پیش کروں جو قاتل معلن ہیں، مگر ابھی تک وہ گرفتار نہیں ہوئے؟ ایک شاعر منظور احمد کی زبان میں یہ کہوں کہ:


دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

  

 تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ تو اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں، اور اہل اسلام کے ساتھ اس طرح کی سینکڑوں آفتیں، آزمائشیں، مصیبتیں، داستانیں، پریشانیاں اور بےچیناں ہیں مگر "سنانے اپنی بربادی کے افسانے کہاں جائیں؟" اور "کس سے سنائیں حال دل بے قرار کا"۔ اللہ تعالی ہم سب پر رحم فرمائے۔ آئیے ذیل میں دو چیزیں یعنی در پیش مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے دو طرح کے حل پیش کرتا ہوں، بغور ملاحظہ فرمائیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Huzoor sallallahu alaihi wasallam ke bare me

allah ta aala naraz ho to kiya hota hai

Nabi aur rasool kise kahte hain