ASRE HAZIR ME MUSALMAN KIYA KAREN POST NO 4

 سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ چھیڑیں داستاں کیسے

 ہنسائیں تو بغاوت ہے رلائیں تو بغاوت ہے

  

    تو ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ درپیش مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہم اپنا امیر منتخب کریں، (اوپر ضمناً اسد الدین اویسی کا ذکر آگیا تھا، جس پر قلم چل گیا تو چل گیا۔ بہر حال آگے چلیے) ضرورت ہے کہ ہم اپنا مشیر منتخب کریں، اس امیر کا قول شاہی فرمان ہو، تمام اہل اسلام اسے بسر و چشم تسلیم کریں، اور ملکی سطح پر ایک مضبوط تحریک چلائیں، ایک مستقل تنظیم قائم کریں، تمام اہل اسلام مکمل طور سے اس کی حمایت کریں، اس کی تائید کریں، اس کا سپورٹ کریں، اس کے لئے ہر قسم کا تعاون پیش کریں، ہر صوبے، ہر شہر اور ہر بستی میں اس کے سینکڑوں ایسے ممبران تیار کیے جائیں، جو ہر وقت جوابی کارروائی کے لیے کمر بستہ رہیں، جو ہر موڑ پر ظلم کے خلاف آہنی تلوار بن کر کھڑے رہے ہیں۔

       اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تحریک چلائے گا کون؟ اتنی بڑی تنظیم قائم کرے گا کون؟ آپ چلائیے گا؟ نہیں چلائیے گا، آپ قائم کیجئے گا؟ نہیں کیجیے گا، آپ کے گھر والے چلائیں گے؟ نہیں چلائیں گے، آپ کے گھر والے قائم کریں گے؟ نہیں کریں گے، اگر آپ نے یا آپ کے گھر والوں نے کوئی تحریک شروع کی یا کوئی تنظیم قائم کی، تو سب سے پہلے ہم آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی ٹانگیں پکڑ کر کھیچیں گے اور سب سے پہلے ہم کہیں گے کہ انہوں نے کھانے کمانے کا دھندا شروع کر دیا ہے، اگر ہم یا ہمارے گھر والے کوئی تحریک چلاتے ہیں یا کوئی تنظیم قائم کرتے ہیں تو سب سے پہلے آپ ہماری ٹانگ کھینچیں گے اور سب سے پہلے آپ کہیں گے کہ انہوں نے کھانے کمانے کا دھندا شروع کردیا ہے۔ (ہم آپ سے مراد وہ لوگ ہیں جو منفی ذہن رکھتے ہیں، جو  مخالف فکر رکھتے ہیں، جو نہ خود کام کرتے ہیں اور نہ دوسرے کو کرنے دیتے ہیں، جو نہ تو خود دین کی محبت میں، دین کی تبلیغ کے لیے اپنا قدم آگے بڑھاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے قدم کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی اللہ تعالی حسن عمل کی توفیق دے) دوسری بات یہ ہے کہ ہم آپ کی رسائی ہی کتنی ہے؟ ہم آپ کی معرفت ہی کتنی ہے؟ اپنے محلے تک، اپنے گاؤں تک، اپنی بستی اپنے شہر اور بہت زیادہ تو اپنے صوبے تک، ہمارے پاس پیسے ہی کتنے ہیں، ہمارے پاس افراد اور احباب ہی کتنے ہیں؟ سو، دو سو، ہزار دو ہزار بہت زیادہ تو پانچ دس ہزار،  ہم آپ کے پاس طاقت و قوت ہی کتنی ہے؟ پھر قیام تحریک، بناے تنظیم، ان کی ترتیب، ان کے اخراجات کا انتظام، پھر ان کے عروجی مراحل ان سب میں سیکڑوں سال سے بھی زیادہ لگ جائیں گے۔ تو آخر یہ کام کرے گا کون؟


     ہمارے ذہن میں ایک صورت ہے، یہ صورت یک لخت ممکن نہیں کہ چٹکی میں اس پر عمل در آمد ہوجائے اور کوئی مشکل در پیش نہ آئے، کوئی محنت نہ کرنی ہڑے، اور بالکل محال بھی نہیں ہے کہ محنت و مشقت کے باوجود اسے عملی جامہ نہ پہنایا جاسکے۔ وہ صورت یہ ہے کہ اپنے ملک کے اندر تقریباً ہر صوبے میں ایک ایسی خانقاہ اور ایک ایسا پیر ضرور موجود ہے، جس کا اس کے صوبے کے اندر رعب و دبدبہ، اثر و رسوخ، رسائی، اعتبار اور اعتماد قائم ہے، اس کی بات اکثر لوگ مانتے ہیں، تو ہم کسی خانقاہ یا کسی پیر کا نام لیے بغیر یہ عرض کرتے ہیں کہ کوئی بھی پیر کوئی بھی خانقاہ اس کا اقدام کرے، پھر ہر بڑی خانقاہ کے موجودہ سجادگان سے تبادلۂ خیال کرے کہ عصر حاضر کے جدید چیلنجز کا کیسے سامنا کیا جائے، مسلمانوں کی بےچینیاں کیسے دور کی جائیں، پریشانیوں کا حل کیسے نکالا جائے، پھر ایک خاص مجلس قائم کی جائے، اس میں پیران عظام، علماے عظام اور بھی دگر بڑی شخصیتوں کو مدعو کیا جائے، اسی مجلس میں اپنا ایک امیر اور اپنا ایک قائد متعین کر لیا جائے، ایک مجلس شوری ہو، جس میں پیران و علماے عظام کے مشورے سے کسی مسئلہ کا حل نکالا جائے، پھر متفقہ راے سے حل کردہ مسئلہ منتخب کردہ امیر و قائد بیان کرے، اور اسے عوام و خواص میں شائع کرے۔ یاد رکھیے کہ جو کام ایک پیر کر سکتا ہے، وہ کام ایک ہزار مرید مل کر بھی نہیں کر سکتے، ایک خانقاہ سے جو کام ہو سکتا ہے، وہ کام ایک ہزار گھر سے بھی نہیں ہو سکتا، جس طرح کے ایک کام جو ایک مدرس اور ایک امام سے ہوسکتا ہے، وہ کام ایک ہزار طلبہ اور ایک ہزار مقتدیوں سے بھی نہیں ہو سکتا۔  جب مذکورہ طریقے پر ایک امیر منتخب ہو جائے گا، تو مسلمانوں کی ہزاروں پریشانیاں ان شاء اللہ پل میں دور ہو جائیں گی، ہر شہر اور ہر بستی میں بہ آسانی ایک دفاعی تحریک اور فلاحی تنظیم قائم ہوجائے گی، جس کی وجہ سے کوئی ظالم تحریک ایک بار حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے گی۔ اب کس کو سپورٹ کرنا ہے، اس کا فیصلہ وہ امیر کرے گا، کس کی حمایت کرنی ہے، اس کا فیصلہ وہ امیر کرے گا، کس کو ووٹ دینا ہے، اس کا فیصلہ امیر کرے گا، وہ امیر سیاسی فیصلہ بھی کرے گا اور سماجی فیصلہ بھی، دینی فیصلہ بھی کرے گا اور دنیوی فیصلہ بھی۔ پہلے نوے فی صد لوگ بات نہیں مانتے تھے، اس انتخاب کے بعد نوے فی صد لوگ ان شاء اللہ بات مانیں گے۔ ہم نے پہلے کہہ دیا ہے کہ یہ کام نہ تو یک لخت آسان ہے کہ چٹکی میں کر لیا جائے گا اور نہ ہی بالکل محال ہے کہ محنت و جانفشانی کے بعد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ رب قدیر تمام اہل اسلام کی حفاظت فرمائے اور جملہ آفت و بلا سے تمام اہل ایمان کو محفوظ رکھے آمین بجاہ النبی الکریم علیہ التحیة و التسلیم۔ حضور حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مرادآبادی کے قول پر اپنی بات ختم کرتے ہیں:


      اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ہے

Comments

Popular posts from this blog

Huzoor sallallahu alaihi wasallam ke bare me

allah ta aala naraz ho to kiya hota hai

Nabi aur rasool kise kahte hain