*○ اللہ کـــــی رحـمــتــــــــــ بہتــــــ وسـیــع ہے
*☆السَـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُۃ☆*
*☆بسْـــــــــــــــــــمِ ﷲِالـــرَّحْمَنِ اارَّحِـــــيـــم☆*
*↷ ❖ عــــــــنــــــــوان ❖ ↶*
*○ اللہ کـــــی رحـمــتــــــــــ بہتــــــ وسـیــع ہـــے○*
*❉ پہلے زمانے میں ایک شخص تھا ، جو چوری ڈکیٹی اور قتل میں بہت مشہور تھا ، وہ نہایت معمولی بات پر کسی کو بھی قتل کر دیتا ، اس طرح اس نے ننانوے(٩٩) آدمیوں کو ناحق قتل کیا ، اس کے بعد اسے اپنے اس عمل پر بہت افسوس ہوا اور اس کو فکر لاحق ہوئ کہ آخرت میں میرا کیا انجام ہوگا ؟ اس کی یہ فکر بڑھتی رہی بالآخر اس نے سوچا کہ کسی بڑے عالم سے معلوم کر لے کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس لیے اس نے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے ؟*
*لوگوں نے اسے ایک راہب کا پتہ بتایا ، ساری دنیا سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول ہونے والے کو راہب کہا جاتا ہے ، چناں چہ یہ شخص اس راہب کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے اپنا حال بیان کیا کہ میں نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا ہے ، کیا اب میری توبہ قبول کو سکتی ہے ؟*
*اس راہب نے جواب دیا : اتنے ناحق قتل کے بعد توبہ کا کیا سوال ! اب تو تمھاری کوئ توبہ قبول نہیں ہو سکتی ، یہ سن کر اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا اور سو قتل پورے ہوگئے ۔*
*لیکن اسے دوبارہ توبہ کی فکر لاحق ہوئ ، لوگوں سے دوبارہ دریافت کیا کہ اس وقت روئے زمین پر بڑا عالم کون ہے ؟*
*اب اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ، یہ شخص ان کے پاس گیا اور ان کے سامنے اپنے سارے حالات بیان کیے کہ میں نے سو قتل کیے ہیں ، اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟*
*اس عالم نے جواب دیا : تمھاری تو توبہ ضرور قبول ہوسکتی ہے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے ، تمھارے اور توبہ کے درمیان کوئ بھی چیز حائل نہیں ہو سکتی ، اللہ کی رحمت کا سمندر تم جیسے گنہگاروں کے گناہوں سے بہت بڑا اور بہت وسیع ہے ۔*
*اس کے بعد اس عالم نے کچھ نیک لوگوں کی ایک بستی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : فلاں علاقے کی فلاں بستی میں چلے جاو ، وہاں نیک لوگ آباد ہیں ، جو اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور وہاں جاکر ان کے ساتھ عبادت میں شریک ہو جاو اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ مانگوں اور اپنی بستی کی طرف لوٹ کر نہ آنا ، کیوں کہ یہ بُری جگہ ہے ۔*
*یہ شخص اس بستی میں جانے کے ارادے سے نکل پڑا ۔ جب آدھا راستہ طے کر لیا ، تو اس کے پاس موت کے فرشتے آپہنچے ، ان میں کچھ تو رحمت کے فرشتے تھے ، جو نیک بندوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور کچھ عذاب کے فرشتے تھے ، جو بُرے لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں ۔ اب اس شخص کی روح قبض کرنے کے بارے میں دونوں قسم کے فرشتوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔*
*رحمت کے فرشتوں کا کہنا تھا کہ چوں کہ اس نے سچے دل سے گناہوں سے توبہ کر لی اور خالص اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوکر آیا ہے ، لہذا اس کی روح قبض کرنے کا حق ہمیں ہے ۔*
*جب کہ عذاب کے فرشتوں کا کہنا تھا کہ اس نے تو کبھی کوئ نیکی نہیں کی ، پوری زندگی گناہوں میں گزار دی ، لہذا اس کی روح قبض کرنے کا حق ہمیں ہے ۔*
*ابھی یہ بات ہی چل رہی تھی کہ ان فرشتوں کے پاس ایک اور فرشتہ آدمی کی شکل و صورت میں حاضر ہوا ، دونوں نے فیصلہ کے لیے اس کو حَکَم مقرر کیا تو اس نے فیصلہ سنایا :*
*جن برے لوگوں کے گاوں سے چل کر یہ شخص آیا ہے اور جن نیک لوگوں کی بستی کی طرف جا رہا ہے ، دونوں کے درمیان فاصلے کو ناپیں ، جس طرف کا فاصلہ کم ہوگا ، اسی طرف کے فرشتوں کو روح قبض کرنے کا حق ہوگا ، چناں چہ زمین ناپی گئ ، تو جس بستی کا ارادہ تھا ، اس طرف کا فاصلہ کم تھا ، لہذا رحمت کے فرشتوں نے روح قبض کر لی ۔*
*پیارے بچو ! تم سے اگر کوئ گناہ ہو جائے ، تو فوراً توبہ کرو ، اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور ایسی جگہ ہرگز نہ ٹھہرو ، جہاں گناہوں سے بچنا مشکل ہو اور جب بھی کوئ مسئلہ پیش آجائے ، تو کسی معتبر عالم سے پوچھ
*☆بسْـــــــــــــــــــمِ ﷲِالـــرَّحْمَنِ اارَّحِـــــيـــم☆*
*↷ ❖ عــــــــنــــــــوان ❖ ↶*
*○ اللہ کـــــی رحـمــتــــــــــ بہتــــــ وسـیــع ہـــے○*
*❉ پہلے زمانے میں ایک شخص تھا ، جو چوری ڈکیٹی اور قتل میں بہت مشہور تھا ، وہ نہایت معمولی بات پر کسی کو بھی قتل کر دیتا ، اس طرح اس نے ننانوے(٩٩) آدمیوں کو ناحق قتل کیا ، اس کے بعد اسے اپنے اس عمل پر بہت افسوس ہوا اور اس کو فکر لاحق ہوئ کہ آخرت میں میرا کیا انجام ہوگا ؟ اس کی یہ فکر بڑھتی رہی بالآخر اس نے سوچا کہ کسی بڑے عالم سے معلوم کر لے کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ اس لیے اس نے لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے ؟*
*لوگوں نے اسے ایک راہب کا پتہ بتایا ، ساری دنیا سے الگ ہوکر اللہ کی عبادت میں مشغول ہونے والے کو راہب کہا جاتا ہے ، چناں چہ یہ شخص اس راہب کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے اپنا حال بیان کیا کہ میں نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا ہے ، کیا اب میری توبہ قبول کو سکتی ہے ؟*
*اس راہب نے جواب دیا : اتنے ناحق قتل کے بعد توبہ کا کیا سوال ! اب تو تمھاری کوئ توبہ قبول نہیں ہو سکتی ، یہ سن کر اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا اور سو قتل پورے ہوگئے ۔*
*لیکن اسے دوبارہ توبہ کی فکر لاحق ہوئ ، لوگوں سے دوبارہ دریافت کیا کہ اس وقت روئے زمین پر بڑا عالم کون ہے ؟*
*اب اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا ، یہ شخص ان کے پاس گیا اور ان کے سامنے اپنے سارے حالات بیان کیے کہ میں نے سو قتل کیے ہیں ، اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟*
*اس عالم نے جواب دیا : تمھاری تو توبہ ضرور قبول ہوسکتی ہے توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہوا ہے ، تمھارے اور توبہ کے درمیان کوئ بھی چیز حائل نہیں ہو سکتی ، اللہ کی رحمت کا سمندر تم جیسے گنہگاروں کے گناہوں سے بہت بڑا اور بہت وسیع ہے ۔*
*اس کے بعد اس عالم نے کچھ نیک لوگوں کی ایک بستی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : فلاں علاقے کی فلاں بستی میں چلے جاو ، وہاں نیک لوگ آباد ہیں ، جو اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور وہاں جاکر ان کے ساتھ عبادت میں شریک ہو جاو اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ مانگوں اور اپنی بستی کی طرف لوٹ کر نہ آنا ، کیوں کہ یہ بُری جگہ ہے ۔*
*یہ شخص اس بستی میں جانے کے ارادے سے نکل پڑا ۔ جب آدھا راستہ طے کر لیا ، تو اس کے پاس موت کے فرشتے آپہنچے ، ان میں کچھ تو رحمت کے فرشتے تھے ، جو نیک بندوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور کچھ عذاب کے فرشتے تھے ، جو بُرے لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں ۔ اب اس شخص کی روح قبض کرنے کے بارے میں دونوں قسم کے فرشتوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔*
*رحمت کے فرشتوں کا کہنا تھا کہ چوں کہ اس نے سچے دل سے گناہوں سے توبہ کر لی اور خالص اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوکر آیا ہے ، لہذا اس کی روح قبض کرنے کا حق ہمیں ہے ۔*
*جب کہ عذاب کے فرشتوں کا کہنا تھا کہ اس نے تو کبھی کوئ نیکی نہیں کی ، پوری زندگی گناہوں میں گزار دی ، لہذا اس کی روح قبض کرنے کا حق ہمیں ہے ۔*
*ابھی یہ بات ہی چل رہی تھی کہ ان فرشتوں کے پاس ایک اور فرشتہ آدمی کی شکل و صورت میں حاضر ہوا ، دونوں نے فیصلہ کے لیے اس کو حَکَم مقرر کیا تو اس نے فیصلہ سنایا :*
*جن برے لوگوں کے گاوں سے چل کر یہ شخص آیا ہے اور جن نیک لوگوں کی بستی کی طرف جا رہا ہے ، دونوں کے درمیان فاصلے کو ناپیں ، جس طرف کا فاصلہ کم ہوگا ، اسی طرف کے فرشتوں کو روح قبض کرنے کا حق ہوگا ، چناں چہ زمین ناپی گئ ، تو جس بستی کا ارادہ تھا ، اس طرف کا فاصلہ کم تھا ، لہذا رحمت کے فرشتوں نے روح قبض کر لی ۔*
*پیارے بچو ! تم سے اگر کوئ گناہ ہو جائے ، تو فوراً توبہ کرو ، اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور ایسی جگہ ہرگز نہ ٹھہرو ، جہاں گناہوں سے بچنا مشکل ہو اور جب بھی کوئ مسئلہ پیش آجائے ، تو کسی معتبر عالم سے پوچھ
Comments
Post a Comment