عید میلاد پر سوالات کے جوابات

Azmat Ansari:
...میلاد کے بارے میں اہم سوالات جوابات...
سوال:
①میلاد کیا ہے، کس حدیث میں ہے کہ میلاد مناو یا کس حدیث میں ہے کہ میلاد نا مناو.....؟؟
سب سے پہلے کس نے منایا.؟
②فرض ہے یا واجب..کوئ نا مناے، جلوس میں نا آے تو..؟؟
③اسلام کے مرکز مکہ مدینہ میں میلاد نہیں منایا جاتا تو تم لوگ کیوں مناتے ہو......؟؟
④بارہ ربیع الاول کے دن تو نبی پاک کی وفات ہوئی، وفات پر خوشی تو شیطان کرتا ہے.....؟؟
نبی پاک کی ولادت اور وفات کی تاریخ کیا ہے....؟؟
⑤میلاد دور نبوی میں نہین تھا، خلفاء راشدین صحابہ کرام تابعین کے دور مین نہین تھا تو یہ بدعت ہوا.........؟؟
بدعت کیوں نہیں، بدعت کیا ہے......؟
⑥آپ نے کہا میلاد کی اصل ثابت ہے تو قرآن و سنت سے وہ اصل وہ دلیل پیش کریں
.
.
جواب①:
*میلاد کیا ہے،سب سے پہلے کس نے منایا*
میلاد کوئ مقرر کردہ مخصوص عبادت.و.عمل نہیں..!
قرآن و حدیث میں صاف صاف دو ٹوک الفاظ میں میلاد منانے یا نا منانے کا حکم نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور نبی پاک کے عمل اور صحابہ کرام اہل بیت کے اقوال و عمل میں غور کیا تو واضح ہوا کہ:
"نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ کی ولادت کی مناسبت سے اچھے،جائز طریقوں سے شکر ادا کرنا، ذکرِ نبی کرنا، صحیح طریقے سے خوشی کا اظھار کرنا میلاد کہلاتا ہے
(ماخذ:حول الاحتفال صفحہ13تا35، حسن المقصد ص196)
.
جلسے جلوس جھنڈے عمدہ لباس...عبادت ذکر اذکار درود کی کثرت....روزہ نوافل عبادت ذکر حمد نعت تحریر تقریر صدقہ خیرات وغیرہ اگر "نبی پاک کی ولادت کی مناسبت سے ہوں صحیح طریقے سے ہوں تو یہ سب میلاد میں شامل ہیں
(ماخذ حول الاحتفال ص13تا35)
.
سب سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے میلاد منایا.
(حول الاحتفال صفحہ16)
.
.
سوال②
*میلاد فرض ہے یا واجب...؟ کوئی نا منائے تو...؟*
جواب:
میلاد کی اصل سنت ہے، مروجہ طریقے سے میلاد مستحب ہے جائز و ثواب ہے فرض واجب نہیں،
کسی ایک طریقے یا مختلف طریقوں سے میلاد منا سکتے ہیں تو اگر کوئی ایک طریقے سے میلاد مناے اور جلوس وغیرہ باقی طریقوں میں شرکت نا کرے مگر توہین اور بے ادبی بھی نا کرے تو اسے گستاخ یا گناہ گار یا محبت نا کرنے والا نہیں کہہ سکتے.(ماخذ حول الاحتفال ص63)
علامہ شامی نے فرمایا:
کثرت سے درود و سلام پڑھا جاے تو بھی کافی ہے
(جواہر البحار 3/340)
.
.
سوال③:
*اسلام کے مرکز مکہ مدینہ میں میلاد نہیں منایا جاتا تو تم لوگ کیوں مناتے ہو......؟؟*
جواب:
موجودہ قسم کی حکومت سے پہلے حرمین شریفین میں میلاد منایا جاتا تھا...حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جو تھانوی گنگوہی وغیرہ علماء دیوبند کے مرشد ہیں فرماتے ہیں:
تمامی حرمین کے لوگ میلاد مناتے ہیں ہمارے لیئے یہی حجت کافی ہے.(شمائم امدادیہ صفحہ 87)
محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’یہ اچھا عمل (یعنی میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں
(المیلاد النبوی ص 35-34)
حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے (الدرالمنظم ص 89)
.
نوٹ:
ﺑﮯ ﺷﮏ ﻣﮑﮧ ﻣﺪﻳﻨﮧ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻴﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﻟﻮﮒ..ﻗﺎﺑﺾ ﺳﻮﭺ...ﻗﺎﺑﺾ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﺮﮐﺰ ﻧﮩﻴﮟ...!!
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﺷﻴﻌﮧ ﻗﺎﺩﻳﺎﻧﯽ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﺍﻳﺠﻨﭧ ﻭﻏﻴﺮﮦ ﮐﻮﺉ ﻣﮑﮧ ﻣﺪﻳﻨﮧ ﭘﮯ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﻴﺎ ﮐﮩﻮ ﮔﺌﮯ..؟؟الغرض ﻗﺮﺍن ﻭﺳﻨﺖ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﮨﻞ ﺑﻴﺖ ﺍﻭﻟﻴﺎﺀ ﺍﺳﻼﻑ ﻧﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻳﺎ، ﺑﺘﺎﻳﺎ ﻭہی ﺗﻌﻠﻴﻤﺎﺕ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻴﮟ..!!
لیھذا کسی ملک شہر حکومت گروپ کے وہ نظریات و اعمال مرکز کہلائیں گے جو قرآن و سنت کے مطابق ہونگے
.

سوال④:
*بارہ ربیع الاول کے دن تو نبی پاک کی وفات ہوئی، وفات پر خوشی تو شیطان کرتا ہے.....؟؟
نبی پاک کی ولادت اور وفات کی تاریخ کیا ہے....؟؟*
.
جواب:
*ولادت*
حضرت سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاول میں ہوئی...
(البدایہ والنھایہ3/375 سیرت ابن ہشام1/58
فتاوی رضویہ26/411, سیرت رسول مصنف مفتی شفیع دیوبندی ص36)
سبل الھدی تاریخ طبری دلائل النبوہ عیون الاآثار زرقانی مستدرک حاکم وغیرہ کئ کتب میں یہی بات لکھی ہے
.
*وفات*
اور نبی پاک کی وفات دو ربیع الاول میں ہوئی..
(البدایہ والنہایہ4/228.. فتح الباری شرح بخاری8/474
مرقاۃ شرح مشکاۃ11/238)
.
کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ وفات بھی بارہ ربیع الاول میں ہوئی مگر علماء محققین کی تحقیق ہے کہ وفات بارہ کو ثابت نہین حتی کہ دیوبندیوں کے معتبر عالم اشرف تھانوی نے بھی لکھا کہ وفات بارہ کو ثابت نہیں
(نشر الطیب ص241 سبل الھدی12/305)
.
امام احمد رضا لکھتے ہیں:
تحقیق یہ ہے کہ حقیقتا حسبِ رویت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کیAzmat Ansari:
 تیرویں تھی..(نطق الھلال فتاوی رضویہ26/417)
.
دیکھا آپ نے کہ وفات بارہ کو ثابت نہیں، پھر بالفرض بارہ کو وفات ہو تو بھی میلاد پر فرق نہین پڑے گا، کیونکہ ایک ہی دن وفات ہو اور اسکو خوشی کا دن عید بھی کہا جائے یہ حدیث پاک سے ثابت ہے، جمعہ کے کو سیدنا ادم علیہ السلام کی وفات ہے اور اسی جمعہ کے دن کو نبی پاک نے عید بھی فرمایا...
بہت ساری احادیث مبارکہ میں ہے کہ:
جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے اور جمعے کے دن وفات پائ..
(ابو داود حدیث نمبر1047..ابن ماجہ ح1084)
اور
اسی جمعے کے دن کو نبی پاک نے صحابہ کرام نے عید کا دن بھی قرار دیا ہے....الحدیث: بے شک جمعہ کا دن عید ہے..(ابن ماجہ حدیث نمبر1098)
.
دیکھا آپ نے جس دن حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی دن وفات بھی....اور نبی پاک نے
اسی دن کو عید بھی قرار دیا....
.
اور پھر ایک ہی دن وفات بھی ہو اور ولادت بھی ہو تو غم منانے سے اسلام نے روکا ہے اور ولادت پر خوشی کی اجازت ہے لیھذا میلاد کی خوشی جائز ہے...الحدیث:
نبی پاک نے وفات کے تین دن کے بعد سوگ.و.غم کرنے سے روکا ہے....(بخاری حدیث 1279)
.
اور عقل اور شعور کا بھی یہی تقاضا ہے کیونکہ
لاکھوں انبیاء کرام گذرے....لاکھوں صحابہ کرام اور اہل بیت سادات گذرے....لاکھوں اولیاء گذرے اور ہفتے میں صرف 7دن اور سال میں کوئ360 دن تو ہر دن کسی نا کسی کی وفات تو ہوئ ہوگی...پھر تو سارا سال ساری زندگی عید منانا جرم...خوشی جرم...؟؟
ایسا ہرگز نہیں........!!
.
سوال⑤:
*میلاد دور نبوی میں نہین تھا، خلفاء راشدین صحابہ کرام تابعین کے دور مین نہین تھا تو یہ بدعت ہوا.........؟؟
بدعت کیوں نہیں، بدعت کیا ہے......؟*
.
جواب:
میلاد ایک طریقے سے خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منایا، صحابہ کرام تابعین اولیاء علماء اسلاف نے منایا ہے، لیھذا میلاد دور نبوی میں بھی تھا، دور صحابہ میں بھی تھا، دور تابعیں میں بھی تھا، خلفاء راشدین کے دور مین تھا،
میلاد کی اصل قران احادیث سنت سے ثابت ہے اور میلاد کا کوئی ایک طریقہ مقرر نہیں اس لیے میلاد کے مروجہ نئے طریقے بھی جائز و ثواب کہلائیں گے
.
حدیث پاک میں ہے کہ:
وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
ترجمہ:
جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)
یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے
.
حدیث پاک میں ہے:
من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء
ترجمہ:
جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد
جو جو اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی
(مسلم حدیث نمبر1017)
یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے
.
ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہین ان مین نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہین... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہین مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..
.
جب نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟
جواب اور #چیلنج:
دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہین کہ جو کام صحابہ کرام نے نہین کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہین کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نا کیا ہو... چیلنج چیلنج...
کچھ لوگ کہتے ہین جو سنت نہین وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے.. سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے..
.
پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟
ایات احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:
.
المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ
فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ
ترجمہ:
بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے
اور
جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت کے"
(فتح الباری 13/253
حاشیہ اصول الایمان ص126
اصول الرشاد ص64
مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار
فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے
جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاAzmat Ansari:
ں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے
اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)
.
نوٹ:
①صحابہ کرام کا فتویٰ:
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
(بخاری جلد2 صفحہ707)
یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے
②سنی وہابی نجدی شیعہ اہل ھدیث وغیرہ تمام کی کتابوں.میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے
اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے
.دعت کیوں نہیں، بدعت کیا ہے......؟
.
سوال⑥:
*آپ نے کہا میلاد کی اصل ثابت ہے تو قرآن و سنت سے وہ اصل وہ دلائل پیش کریں*
جواب:
علماء کرام نے باقاعدہ میلاد پر کتابیں لکھی ہین اور قرآن و سنت سے کئ دلائل پیش کیے ہیں، یہاں تمام دلائل کا تذکرہ ممکن نہیں...چند دلائل پیش ہیں
.
دلیل:1
القرآن...ترجمہ:
اپنے رب کی نعمت کا چرچا کرو..(سورہ والضحی آیت11)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہین..(بخاری2/41)
میلاد میں اللہ کریم کی عظیم نعمت یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچہ ہی تو ہوتا ہے
.
دلیل:2
القرآن...ترجمہ:
کہہ دیجیے اللہ کے فضل و رحمت اور اسی پر خوشی کرنا چاہیے..(سورہ یونس آیت58)
میلاد میں اللہ کی عظیم رحمت اور اللہ کی عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے
.
دلیل:3
نبی پاک نے کئ بار ایک طریقے سے میلاد منایا...نبی پاک سے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئ تو آپ نے فرمایا:
یہ دن میری ولادت کا دن ہے..(مسلم1/368)
یہ حدیث بے شمار کتابوں مین ہے
.
دلیل:4
اسی طرح صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھ کر میلاد منایا ہے
دیکھیے ابو داود 1/331)
.
دلیل:5
نبی پاک کی ولادت پر عقیقہ ہوا تھا اس کے باوجود آپ نے دوبارہ اپنا عقیقہ کیا جو کہ میلاد کی دلیل ہے
دیکھیے سنن کبری 9/300 فتح الباری9/595)

.
دلیل:6
صحابہ کرام ایک دن محفل سجائے بیٹھے تھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے حمد کر رہے تھے، نبی پاک کی آمد و بعثت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اللہ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے تو نبی پاک نے صحابہ کرام سے فرمایا:
اللہ فرشتوں سے تم پر فخر کر رہا ہے...(صحیح سنن نسائی حدیث5426) مسند احمد طبرانی وغیرہ کتب مین بھی یہ واقعہ درج ہے
.
اور بھی بہت دلائل علماء کرام نے کتابوں میں لکھے ہیں، عربی اردو مین میلاد پر کتابیں لکھی گئی ہیں، دو چار کتب تو ضرور پڑھنی چاہیے...
.
*میلاد اسٹیج نعت*
نبی علیہ الصلاۃ والسلام حضرت حسان کے لیے منبر (اسٹیج) رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہوکر شانِ مصطفی بیان کرتے، نعتِ نبی بیان کرتے، کافروں مشرکوں کی مذمت بیان کرتے تھے، نبی پاک کا دفاع بیان کرتے تھے..
(دیکھیے بخاری حدیث3212 ترمذی حدیث2846)
.
*میلاد ولادت اور سلام*
القرآن..ترجمہ:
مجھ(حضرت عیسی علیہ السلام) پر سلام ہو میری ولادت کے دن..(سورہ مریم آیت33)
.
*میلاد جلسے جلوس نعت جھنڈے
نعرے*
جب نبی پاک مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت عظیم الشان جلوس کے ساتھ آپ علیہ السلام کا استقبال کیا گیا، طلع البدر علینا اور دیگر نعت پڑھی گئ، جھنڈا نہین تھا تو ایک صحابی نے اپنے عمامے کو اتار کر بڑا جھنڈا بنا لیا، یا محمد یا رسول اللہ کے نعرے لگائے گئے
(دیکھیے الوفا247 بخاری1/555 مسلم2/419)
.

*آمدِ مصطفی مرحبا کے نعرے*
معراج کی رات آسمانوں پر آمدِ مصطفی پے انبیاء کرام نے یہ کہتے ہوئے استقبال فرمایا...ترجمہ: آپ کی آمد مرحبا
(دیکھیے بخاری حدیث2968)
.
[ ] ت

Comments

Popular posts from this blog

Huzoor sallallahu alaihi wasallam ke bare me

allah ta aala naraz ho to kiya hota hai

Nabi aur rasool kise kahte hain