Firqon ka wajood kaise hua
*فرقوں کا وجود کیسے ہوا ؟ ایک حقیقت*✍
*کل تک جو لوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے،*
*آج وہ لوگ اہلسنّت والجماعت ہونے کے دعویدار ہیں،*
یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟
یہ لوگ کون ہیں۔؟
کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟
اور اِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔
سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں
”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ
” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک
یہاں آنے والے
اور اسلام قبول کرنے والے
صرف اور صرف اہلسنّت و جماعت تھے،
اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا،
سارے علماء و مشائخ سنی حنفی تھے……پھر مغل سلاطین کی فوج میں
کچھ شیعہ یہاں آئے
اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“
(2)حضرت امیر خسرو اپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال وکوالف کی منظر کشی کرتے ہیں ،
جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں۔
”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلسنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“
(3) یہ صور تحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور
”حضرت مجدد (الف ثانی) کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے،
ایک اہلسنّت وجماعت ،
دوسرا شیعہ۔
اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویة الایمان لکھی،
اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا،
کوئی غیر مقلد بنا،
کوئی وہابی بنا،
کوئی اہلحدیث کہلایا،
کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا،
آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا،
وہ ختم ہوا،
معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے
اور افسوس اِس بات کا ہے کہ
توحید کی حفاظت کے نام پر
بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات (یعنی بے ادبی وگستاخی) کا سلسلہ شروع کردیا،
یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“
(4) تقویة ایمان کی اِس شرانگیزیری پر
اشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیںکہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب”
"تقویة الایمان “
کی وجہ سے مسلمانان پاک وہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔
(5) یوں شیعیت کے بعد
نجد کا فتنہ وہابیت
(جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار ونظریات کا مجموعہ ہے)
اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا
اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب ”تقویة الایمان“ اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔
” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزاد نہ روش کی خواہش رکھتی تھی ،
اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔
(6) درحقیقت تقویة ایمان
انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کیلئے منظر عام پر آئی ،
جولڑاو ¿
اور حکومت کرو کے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی،
انگریز کی ایماء پر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ
اور فتنہ وفساد پھیلانے والی
”اِس کتاب کو 1838ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ (جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد 12 میں شائع کیا تھا)
نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا ۔“
(7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ ،
دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”انگریزوں نے تقویة الایمان مفت تقسیم کی۔“
(8) آغا شورش کاشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا کہ
مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو،
اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا،
انہیں پروان چڑھایا،
اُن کا ہاتھ بٹایا۔
(9) اِس طرح تقویة الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے
برصغیر میں
”اہلحدیث،
نیچریت،
چکڑالویت،
انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“
(10) شاعر مشرق
علامہ محمد اقبال
(اللہ کی آپ پر رحمت ہو)
اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں
جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“
(11) جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول
”تقویة الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ
سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت سنی حنفی
سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں
مختلف فرقوں میں داخل ہونے لگے
اور اِس طرح سوادِ اعظم
اہلسنت و جماعت سنی حنفی کا شیرازہ
منتشر ہوگیا،
اِس انتشار کی روک تھام
اور اہلسنّت کی شیرازہ بندی کیلئے
روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے
ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا،
یہ فاضل عالم تھے،
مولانا احمد رضا خاں،
جواماAzmat Ansari:
م اہلسنّت مجدد دین وملت
فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔
(12) ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “
پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں
”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا،
اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔
(13) اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی
مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم
اہلسنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ،
خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8 پر تسلیم کرتے ہیں کہ
” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا،
اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے۔“
شیخ محمد اکرام کے بقول
”انہوں (مولانا احمدرضا خاں)
نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“
(14) خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ
”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ،
لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“
(15) جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے ،
جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“
(16) نواب صدیق حسن بھوپالی
اہلحدیث نے اقرار کیا کہ
”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے،
اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“
(17) قارئین محترم !
درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر وہابی ، اہلحدیث ، دیوبندی کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں
کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ
برصغیر پاک و ہند میں
السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں،
وہ قدیم ترین جماعت ہے
جس کی ابتداء اسلام کی آمد سے
منسلک ہے ،
شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر یعنی دیوبندی
اِس براعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،
جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق
اُس مکتبہ فکر سے ہے
جو شدت کے ساتھ قدیم
سنی حنفی عقائد پر گامزن رہا،
حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود
مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر
الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے
ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ،
جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ
”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری،
سہروردی،
نقشبندی ،
چشتی،
رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں
جو بریلویوں کے ہیں“
(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں،
سہروردیوں،
نقشبندیوں ،
چشتییوں اور
رفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں
جو بریلویوں کے ہیں تو
کیا اِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا
اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا،
یقینا عقل و شعور سے یہ تصور محال ہے
اور کوئی بھی ذی علم
اِس بات کی تائید
اس لیے نہیں کرسکتا کہ
مولانا احمد رضا خاں نے
برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی
بلکہ چودھویں صدی میں
قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا،
انہوں نے عظمت الوہیت،
ناموس رسالت،
مقام صحابہ و اہل بیت
اور حرمت ولایت کا پہرا دیا
اور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات
(جسے عرب و عجم کے علماء و ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا)
کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے
مجدد اور اہلسنّت وجماعت کا فخر و امتیاز قرار پائے۔
سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں
” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،
از اوّل تا آخر مقلد رہے،
اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت
اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو واضح طور پر پیش کرتی رہی،
وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی
”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے،
اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ،
انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا
تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟
اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ۔
(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج
”اہلسنّت و جماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی و دیوبندیت کو چہپانا چاہتے ہیں ی
*کل تک جو لوگ دیوبندی اور وہابی کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے،*
*آج وہ لوگ اہلسنّت والجماعت ہونے کے دعویدار ہیں،*
یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔؟
یہ لوگ کون ہیں۔؟
کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔؟
اور اِن کی پرورش و آبیاری کس نے کی۔؟آئیے ذیل میں اِن عوامل کا جائزہ لیتے ہیں۔
سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں
”سندھ میں جو عرب فاتح آئے وہ سنّی تھے۔(1)تاریخ کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ
” ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد پانچویں چھٹی صدی ہجری تک
یہاں آنے والے
اور اسلام قبول کرنے والے
صرف اور صرف اہلسنّت و جماعت تھے،
اُس زمانے میں سنیت اور حنفیت کا دور دورہ تھا،
سارے علماء و مشائخ سنی حنفی تھے……پھر مغل سلاطین کی فوج میں
کچھ شیعہ یہاں آئے
اور رفتہ رفتہ انہوں نے قدم جمانا شروع کیا۔“
(2)حضرت امیر خسرو اپنے فارسی اشعار میں ہندوستان کے اسلامی احوال وکوالف کی منظر کشی کرتے ہیں ،
جسے نقل کرتے ہوئے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ارشاد فرماتے ہیں۔
”ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد قریب پانچ سو برس تک اہلسنّت و جماعت کی بہاریں رہیں اور کوئی فرقہ بندی نہیں ہوئی“
(3) یہ صور تحال حضرت مجدد الف ثانی کے زمانے تک قائم رہی اور
”حضرت مجدد (الف ثانی) کے زمانے سے 1240ھ/ 1825ءتک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے،
ایک اہلسنّت وجماعت ،
دوسرا شیعہ۔
اب اسمعٰیل دہلوی نے تقویة الایمان لکھی،
اِس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا،
کوئی غیر مقلد بنا،
کوئی وہابی بنا،
کوئی اہلحدیث کہلایا،
کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا،
آئمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا،
وہ ختم ہوا،
معمولی نوشت وخواند کے افراد امام بننے لگے
اور افسوس اِس بات کا ہے کہ
توحید کی حفاظت کے نام پر
بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیرات (یعنی بے ادبی وگستاخی) کا سلسلہ شروع کردیا،
یہ ساری قباحتیں 1240ھ/ 1825ءکے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئی ہیں۔“
(4) تقویة ایمان کی اِس شرانگیزیری پر
اشک ندامت بہاتے ہوئے دیوبندی مکتبہ فکر کے مولوی احمد رضا بجنوری رقم طراز ہیںکہ”افسوس ہے کہ اِس کتاب”
"تقویة الایمان “
کی وجہ سے مسلمانان پاک وہند جن کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دو گروہوں میں بٹ گئے ۔
(5) یوں شیعیت کے بعد
نجد کا فتنہ وہابیت
(جو شیخ ابن تیمیہ حرانی اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے افکار ونظریات کا مجموعہ ہے)
اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان میں نمودار ہوا
اور اسمعٰیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتاب ”تقویة الایمان“ اِس فتنے کے فروغ کا ذریعہ بنی۔
” انگریز وں نے اتباع سنت اور عمل بالحدیث کے نام پر شروع ہونے والی ایک ایسی تحریک کی سرپرستی کی جو دراصل فقہ میں آزاد نہ روش کی خواہش رکھتی تھی ،
اُسے کسی ایک امام مجتہد کی فقہ کی پابندی میں جکڑا رہنا گوارا نہیں تھا۔
(6) درحقیقت تقویة ایمان
انگریزوں کے اشارے پر تفریق بین المسلمین کیلئے منظر عام پر آئی ،
جولڑاو ¿
اور حکومت کرو کے آزمودہ حربے کا شاخسانہ تھی،
انگریز کی ایماء پر مسلمانوں کے درمیان ہنگامہ
اور فتنہ وفساد پھیلانے والی
”اِس کتاب کو 1838ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ (جس نے اِس سے قبل 1825ءمیں اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ لندن کے رسالہ جلد 12 میں شائع کیا تھا)
نے ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا ۔“
(7) پروفیسر محمد شجاع الدین صدر شعبہ تاریخ ،
دیال سنگھ کالج اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”انگریزوں نے تقویة الایمان مفت تقسیم کی۔“
(8) آغا شورش کاشمیری اِس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”انگریز اپنی چال میں کامیاب رہا کہ
مسلمانوں کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو،
اُس کی شکل یہ نکالی کہ بعض نئے فرقوں کو جنم دیا،
انہیں پروان چڑھایا،
اُن کا ہاتھ بٹایا۔
(9) اِس طرح تقویة الایمان کے بطن سے پیدا ہونے والی وہابیت نے
برصغیر میں
”اہلحدیث،
نیچریت،
چکڑالویت،
انکار حدیث اور قادیانیت سمیت اکثر و بیشتر فرقوں کی بنیاد رکھی ۔“
(10) شاعر مشرق
علامہ محمد اقبال
(اللہ کی آپ پر رحمت ہو)
اِس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
”قادیان اور دیوبند اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں اُس تحریک کی پیداوار ہیں
جسے عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے۔“
(11) جامعہ ملیہ دہلی کے استاد ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم کے بقول
”تقویة الایمان کے بعد اختلافات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ
سوادِ اعظم اہلسنت و جماعت سنی حنفی
سے نکل نکل کر لوگ مختلف خیموں
مختلف فرقوں میں داخل ہونے لگے
اور اِس طرح سوادِ اعظم
اہلسنت و جماعت سنی حنفی کا شیرازہ
منتشر ہوگیا،
اِس انتشار کی روک تھام
اور اہلسنّت کی شیرازہ بندی کیلئے
روہیل کھنڈ کے شہر بریلی کے
ایک فاضل عالم نے عزم مصمم کیا،
یہ فاضل عالم تھے،
مولانا احمد رضا خاں،
جواماAzmat Ansari:
م اہلسنّت مجدد دین وملت
فاضل بریلوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے۔
(12) ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر پونا یونیورسٹی سے ”مولانا محمد انوار اللہ فارقی حیدرآبادی “
پر پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھتے ہیں
”کئی ایسے مذہبی دانشور اور مفکر بھی آئے جنھوں نے مسلمانوں کی دینی اور مسلکی رہنمائی میں اپنی تصانیف کے ذریعہ مجددانہ اورمجاہدانہ کردار پیش کیا،
اِن مصلحین میں مولانا احمد رضا فاضل بریلوی نامور ہوئے۔
(13) اَمر واقعہ یہ ہے کہ فاضل بریلوی
مولانا احمد رضا خاں السواد اعظم
اہلسنّت وجماعت سنی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ،
خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مورخ سید سلیمان ندوی حیات شبلی صفحہ 8 پر تسلیم کرتے ہیں کہ
” تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنة کہتا رہا،
اِس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے۔“
شیخ محمد اکرام کے بقول
”انہوں (مولانا احمدرضا خاں)
نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔“
(14) خود اہلحدیث مولوی احسان الٰہی ظہیر نے لکھا کہ
”یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے ،
لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔“
(15) جبکہ ثنا اللہ امرتسری کا کہنا ہے کہ ”اَسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اِسی خیال کے تھے ،
جن کو آج بریلوی خیال کیا جاتا ہے۔“
(16) نواب صدیق حسن بھوپالی
اہلحدیث نے اقرار کیا کہ
”خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے،
اُس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں۔“
(17) قارئین محترم !
درج بالا چند حوالہ جات جو زیادہ تر مخالف مکتبہ فکر وہابی ، اہلحدیث ، دیوبندی کے مشہور افراد کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں
کو دیکھ کر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ
برصغیر پاک و ہند میں
السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں،
وہ قدیم ترین جماعت ہے
جس کی ابتداء اسلام کی آمد سے
منسلک ہے ،
شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر یعنی دیوبندی
اِس براعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،
جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق
اُس مکتبہ فکر سے ہے
جو شدت کے ساتھ قدیم
سنی حنفی عقائد پر گامزن رہا،
حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود
مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر
الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے
ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ،
جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ
”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری،
سہروردی،
نقشبندی ،
چشتی،
رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں
جو بریلویوں کے ہیں“
(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں،
سہروردیوں،
نقشبندیوں ،
چشتییوں اور
رفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں
جو بریلویوں کے ہیں تو
کیا اِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا
اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا،
یقینا عقل و شعور سے یہ تصور محال ہے
اور کوئی بھی ذی علم
اِس بات کی تائید
اس لیے نہیں کرسکتا کہ
مولانا احمد رضا خاں نے
برصغیر میں کسی نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی
بلکہ چودھویں صدی میں
قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا،
انہوں نے عظمت الوہیت،
ناموس رسالت،
مقام صحابہ و اہل بیت
اور حرمت ولایت کا پہرا دیا
اور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات
(جسے عرب و عجم کے علماء و ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا)
کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے
مجدد اور اہلسنّت وجماعت کا فخر و امتیاز قرار پائے۔
سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں
” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،
از اوّل تا آخر مقلد رہے،
اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت
اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو واضح طور پر پیش کرتی رہی،
وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی
”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے،
اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ،
انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا
تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟
اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ۔
(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج
”اہلسنّت و جماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی و دیوبندیت کو چہپانا چاہتے ہیں ی
Comments
Post a Comment