محبت رسولﷺ پرجان بھی قربان ہے
(🌻🌹محبت رسولﷺ پرجان بھی قربان ہے🌹🌻)
اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعت ِالٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔ مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کردیا۔ سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
'' تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ﴾... سورة الاحزاب
''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ حضور صلی الله عليه وسلم سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)
سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوٰنُكُم وَأَزوٰجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموٰلٌ اقتَرَفتُموها وَتِجـٰرَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِهِ...٢٤﴾... سورة التوبة
''(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔
رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
نبی کریمؐ کا ظاہری وباطنی کمال وجمال
محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں :
«''کان مثل الشمس والقمر» (مسنداحمد:۵؍۱۰۴ )
آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔''
ربیع بنت معوذ آپ ؐ کے بارے میں فرماتی ہیں: «لورأيت الشمس طالعة» (مجمع الزوائد: ۸؍۲۸۰)
اگر تم رسول اللہؐ کو دیکھتے توایسے سمجھتے جیسے سورج نکل رہا ہے۔''
آپؐ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیینؐ، سید المرسلین، امام الاوّلین والآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپؐ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں بلکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں۔ صاحب ِجمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓآپ ؐ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
(پہلی وحی کے موقعہ پر آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا) ''آپؐ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے، درماندوں اور بے کسوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔'' (بخاری :کتاب بدء الوحی حدیث، رقم:۳)
تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپؐ کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتیٰ کہ تمام انبیا میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تنہا آنحضورﷺ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔ بقولِ شاعر
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری !
٭٭ ٭ حب ِ رسولؐ کے تقاضے ٭٭ ٭
رسول اللہﷺکے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اورکچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان سب تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
1. احترام و تعظیم رسولؐ
ع ''ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔'' حب ِ رسولؐ کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسولؐ ہے۔ یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گر ِایمان ہے۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورﷺ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔بلاشبہ جو لوگ رسول اللہﷺکے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ '' (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پربلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکربیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپؐ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ''تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ''میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورﷺسے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔''
(بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
''بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضورﷺکی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہﷺکے اوپر چل پھر رہے ہیں، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔
یہ تو تھا آپؐ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپؐ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپؐ کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپؐ سے صدقِ دل سے محبت کریں، آپؐ کے فرمودات پر عمل کریں، اپنی زندگی میں آپؐ کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں۔جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہﷺکی تعظیم ہے۔
2. حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ
حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
1. ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩﴾... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔
2. حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
''(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)
گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔
3. حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
''یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتاہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔'' (ترمذی؛۲۳۵۰)
گویا جس کے دل میں حب ِرسولؐ ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورﷺکی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے۔
4. فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے :
''من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي في الجنة''
''جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (تاریخ ابن عساکر:۳؍۱۴۵)
5. فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ
6. حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
کل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبٰی قالوا يارسول اﷲ ! ومن يأبی قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبٰی (بخاری؛۷۲۸۰)
''میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا۔''
قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ بات ہمیں سمجھائی ہے۔ مثلاً
1. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤﴾... سورة النساء
''ہم نے رسول بھیجے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔''
2. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورة النساء
''جس نے رسولؐ کی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔''
3. سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
''تم میں سے جو کوئی اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے رسول اللہؐ کی ذات والا صفات میں اچھا نمونہ ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے حب ِرسولؐ کا حق ادا کیا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ قاضی عیاضؒ اپنی کتاب 'الشفائ' میں فرماتے ہیں: فقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ
''سفیان ثوری (تابعی) نے فرمایا کہ حب ِرسولؐ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺہے۔''
بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث ِرسولؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حب رسولﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ کی اطاعت کی جائے۔ وہ محبت جو سنت رسول اللہﷺپر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرمﷺکی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہﷺکی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنت ِرسولؐ کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے۔
یہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست
3. قلبی محبت
تکمیل ایمان کے لئے رسول اللہﷺ کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم ورضا بھی ضروری ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
1. ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء
''نہیں، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کرلیں۔''
2. حضرت حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ
''میں عمرؓ بن خطاب کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر قربانی کے دن طوافِ زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے تو کیا کرے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے۔ حارث نے کہا: رسول اللہﷺنے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو رسول اللہﷺسے پوچھ چکا تھا، تاکہ میں رسول اللہﷺکے خلاف فیصلہ کروں۔'' (صحیح ابوداود؛۱۷۶۰)
سنت کا علم ہونے کے باوجود مسئلہ دریافت کرنے پر حضرت عمرؓ کی ناراضگی اس بنا پر تھی کہ رسول اللہﷺکے فیصلے کو دلی رضا مندی کے ساتھ کیوں نہیں تسلیم کیا۔ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں۔ حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ
3. ''میرے باپ زبیر اور ایک انصاری میں فرہ کے مقام پر پانی پر جھگڑا ہوا۔ آپؐ نے زبیر کو کہا کہ تم اپنے درختوں کو پانی لگا لو۔ پھر اسے ہمسائے کے باغ میں جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا :کیوں نہیں، آخر زبیر آپ کے پھوپھی زاد جو ہوئے (اس لئے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے)... یہ سن کر آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر کو کہا: زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ جب تک پانی منڈیروں پرنہ پہنچ جائے، اس کے لئے پانی نہ چھوڑو۔'' (بخاری؛۴۵۸۵)
یعنی جب انصاری نے آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا تو آپ کو غصہ آگیا تو آپ نے انصاف والا حکم جاری فرمایا۔ جب کہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔
4. رسول اللہﷺکے حکم کی موجودگی میں اپنی مرضی یا کسی دوسرے کے حکم پر عمل کرنے کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔سورۃ الاحزاب میں فرمانِ خداوندی ہے:
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم ۗ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب
''کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولﷺکسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسولؐ کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔''
5. سورۃ الحشر ، آیت نمبر ۷ میں ارشادِ الٰہی ہے :
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ٧﴾... سورة الحشر ''جو کچھ رسولؐ تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈر جاؤ، وہ شدید عذاب دینے والا ہے۔''
گویا آپ کا حکم اور عمل ہی فیصلہ کن سند قرار پائے اور اس حکم کو ماننے یا نہ ماننے اور اس پر ناگواری کے احساس یا عدمِ احساس پر ہی آدمی کے مؤمن ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ٹھہرا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ مؤمن اللہ اور اس کے رسولؐ کے کئے گئے فیصلہ کے متعلق عدم اطمینان کا شائبہ تک دل میں لائے۔آج کے مسلمانوں کواپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ حب ِرسولؐ کے اس تقاضے کو کس حد تک نباہتے ہیں؟
4. اتباعِ رسولﷺ
اتباع اور اطاعت کے معنی میں یہ فرق ہے کہ اطاعت کا مطلب دیے گئے حکم کی تعمیل کرنا ہے مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا ہے ، چاہے اس کام کاباقاعدہ حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔ گویا یہ مقامِ 'خلت' ہے ، انتہاے محبت ہے کہ محبو ب کی ہر ادا پر قربان ہونے کو جی چاہے۔
آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو حضورؐ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضورؐ نے کیا ہوتا۔ ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جو آپؐ کو پسند ہوتا۔ جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہوجاتی اور اس مقام پر وہی عمل انجام دینا وہ اپنی سعادت جانتے ، جیساکہ درج ذیل روایات سے واضح ہوتا ہے:
1. موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میںبعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
2. حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعاے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمؐ کو دیکھا تھا کہ آپؐ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپؐ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضورؐ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود؛۲۶۰۲)
3. حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کدو پسند ہیں۔ تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۳؍۱۷۷)
4. ایک بار آپؐ نے سرکے کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی؛۲۱۸۱)
5. ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپﷺنے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی گویا آپؐ نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ ؐکے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضورﷺنے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا ۔کیونکہ رسول اللہﷺنے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم؛۲۰۹۰)
6. مسجد ِنبوی میں خواتین بھی شریک ِجماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ مخصوص نہ تھا۔ایک روز آپؐ نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ''کاش ہم یہ دروازہ عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے۔'' حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی پابندی کی کہ پھر تادمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے۔ (......)
7. کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ''لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔'' تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد:۵؍۲۷۷)
'اتباع' کا مکمل مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں :
کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جہاں وہ تیز ہوگی، یہ بھی تیز ہوگی۔ جدھر وہ مڑے گی یہ بھی ادھر مڑے گی۔جدھر وہ آہستہ ہوگی، یہ بھی آہستہ ہوجائے گی حتیٰ کہ جہاںوہ رک جائے گی پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی۔ یہ اتباع ہے اور حب ِرسولؐ کا تقاضا صرف اطاعت ِرسولؐ ہی نہیں بلکہ اتباعِ رسولؐ ہے۔
یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب ِرسولؐ کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور نعت ِرسولؐ بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسولؐ سے بالکل تہی دامن ہوگئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کاہر پہلوغور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوئہ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولیٰ میںتھا۔ انہوں نے سچے جذبے، پکے عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔
ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبیؐ کی رسالت اور آپؐ کے واجب الاتباع ہونے میں کسی دوسرے انسان کو لانا درست نہیں۔ نبی کریمﷺ کا ہی یہ مقام ہے کہ آپ معصوم ہیں اور غلطی سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بچا کر رکھا ہے۔ یہ حیثیت آپ کے کسی اُمتی کو حاصل نہیں۔ لیکن بعض لوگ ائمہ کرام کے احترام میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ انہیں بھی نبی کی طرح معصوم سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ نبی کریم کا صریح فرمان آنے کے باوجود وہ اپنے امام کی بات ماننے پر ہی مصر رہتے ہیں۔
ائمہ اربعہ یعنی امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد رحمہم اللہ عنہم کے مدوّن کردہ مسائل اور ان کے بیان کردہ احکامِ دین و شرع درحقیقت اللہ کی کتاب اور سنت ِرسولؐ سے ہی حاصل کردہ ہیں۔ اس و جہ سے ان ائمہ عظام کے بیان کردہ فقہ کے مسائل کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن جب انہیںکوئی صریح نص یعنی کوئی آیت یا حدیث ِصحیح نہ مل سکے تو پھر یہ قیاس واستنباط کرتے ہیں۔ مگر ایسی صورت میں ان سب ائمہ نے اپنے اپنے شاگردوں پر واضح کردیا کہ ''جب حدیث ِرسولؐ مل جائے تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دینا۔''
بڑی مناسب بات تھی جو انہوں نے فرمائی۔ مگر ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت میں ان کے اَقوال کو تو نہ چھوڑا اور احادیث ِرسولؐ کو چھوڑ دیا۔ پھر اسی بنیاد پر اپنے الگ الگ مسلک بنا لئے۔ بے شک یہ سب فروعی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر مسالک وجود میں آئے، مگر اُمت ِمحمدیہؐ میں تو گروہ بندی ہوگئی جس سے قرآن و حدیث نے شدت سے منع فرمایا تھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حب ِرسولؐ سے سرشار ہوکر اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا کی جائے اور حتی المقدوراحادیث ِرسولؐ کو ہی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں بنیاد بنایا جائے۔
آباء پرستی سے اجتناب : اسی طرح اَن پڑھ اور جاہل عوام کی کثیر تعداد اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتی ہے۔ حالانکہ حب ِرسولؐ کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپؐ کے فرمان کے سامنے ہر کسی کی بات ہیچ ہو اور ہر ایسی خاندانی روایت اور معاشرتی چلن، جو کہ اسلام سے متصادم ہیں، چھوڑ دیئے جائیں اور سنت ِرسولؐ کوجاری و ساری کیا جائے۔
1. سورۃ لقمان آیت نمبر۲۱ میں ارشادِ خداوندی ہے :
''جب انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے، ا س کی اتباع کرو تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء کو پایا۔''
2. سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۰ میں فرمایا :
''جب انہیں کہا جائے کہ اس کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں بلکہ ہم اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا۔ اگرچہ ان کے آباء نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں۔''
3. نیز ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۱ میں فرمایا :
''یہ گونگے بہرے اندھے لوگ ہیں۔ یہ جانوروں کا ریوڑ ہیں، ان کو کچھ عقل نہیں۔''
حب ِرسولؐ کی صداقت و سچائی کا معیار یہ ہے کہ سنت ِرسولؐ کے علاوہ ہر طریق کو چھوڑ دیا جائے۔ بعض لوگ ائمہ فقہاء کی تقلید میں غیر مسنون افعال انجام دیتے ہیں اور بعض اپنے آباء و اجداد کی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ سنت سے دوری کی کوئی بھی صورت ہو اس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے۔
5. درود ... صلوٰۃ و سلام
حب ِرسولؐ کے اظہار و اثبات کے لئے لازم ہے کہ جب آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی پڑھنے، سننے یا بولنے میں آئے تو فوراً صلوٰۃ و سلام ورد زبان ہوجائے۔ خود اللہ اور اس کے فرشتے بھی آنحضورؐ پر درود بھیجتے ہیں۔سورۃ احزاب میں ارشاد ہے:
1. ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب
''بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔''
ابوالعالیہؒ نے کہا کہ''اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ کی تعریف فرماتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے مراد ہے کہ وہ آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ ابن عباسؓ کہتے ہیںکہ یصلون کامعنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔'' (بخاری، کتاب التفسیر: باب قولہ ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ النبی)
2. حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں: ''جب تک تو اپنے نبیؐ پر درود نہ بھیجے، دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے ، اوپر نہیں چڑھتی۔'' (صحیح ترمذی للالبانی؛۴۰۳)
3. حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔'' (مسنداحمد:۱؍۲۰۱)
4. ایک بار منبر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے تین بار آپؐ نے آمین آمین آمین کہاتو صحابہؓ کے استفسار پر آپ ؐ نے فر مایا:
''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے تھے۔ تین کاموں کے نہ کرنے والے پر انہوں نے اللہ کی لعنت بتائی تو میں نے ا س پر آمین کہا۔ان باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جس مسلمان کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور میں نے اس پر آمین کہا۔'' (مستدرک حاکم:۴؍۱۵۳ و بخاری)
درود و سلام درحقیقت ایک دعاے رحمت و برکت ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے ذریعے ایمان و اسلام کی عظیم نعمت سے ہم سرفراز ہوئے۔ اس احسان کا بدلہ مسلمان کبھی بھی اُتارنہیںسکتے۔ تاہم اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ اس عظیم ہستی کی محبت سے سرشار ہوکر ان کے حق میں دعائے رحمت و برکت کیا کریں۔مگر اللہ کی رحمت کی انتہا دیکھئے کہ اس عمل کو ہمارے لئے بھی انتہا درجہ باعث اجروثواب بنا دیا۔
5. حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ '' (مجمع الزوائد:۱۰؍۱۶۱)
6. حضرت عبداللہ بن مسعودؓؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا کہ
''قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے والا ہوگا۔'' (فتح الباری:۱۱؍۱۶۷)
درود شریف دراصل ایک مسلمان کا ترانۂ محبت ہے جو وہ اپنے محبوبﷺکے حضور پیش کرتا ہے اورنتیجے میں اپنے لئے بھی درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کی نوید حاصل کرتا ہے۔
آپؐ کے حضور درود کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی محفل ہی برپا کی جائے یا کوئی خاص وقت ہی صرف کیا جائے بلکہ یہ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور خاص طور پر جب آپؐ کا نام کا تذکرہ ہو تو فوری 'صلی اللہ علیہ وسلم' کے مبارک الفاظ کے ساتھ یہ نذرانہ آپؐ کے حضور پیش کردینا چاہئے کہ یہی حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے۔
6. صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی محبت
حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہو۔ کیونکہ آپﷺ کو ان سے محبت تھی۔
1. صحابہ کرامؓ کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ...﴿١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور جو مہاجر اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔''
2. سورۃ الفتح میں صحابہ کرام ؓ کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم ۖ تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا...﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور آپؐ کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں، آپؐ انہیں رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھیں گے۔ یہ اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی ہیں ''
3. رسول اللہﷺنے فرمایا:
''میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خو ف کرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، پس جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے بغض کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ جو انہیں ایذا دے گا اس نے مجھے ایذا دی۔ جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی، اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے گا۔ '' (مسنداحمد:۵؍۵۴)
4. حضرت فاطمہ الزہراؓکے لئے آپؐ نے فرمایا:
''فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔'' (بخاری تعلیقا فی مناقب قرابۃ رسول اللہؐ و مسلم؛۶۲۶۴)
5. حضرت حسنؓ، حسینؓ کے بارے میں فرمایا:
''اللهم أحبهما، إني أحبهما'' (بخاری؛۳۷۴۷)
''اے اللہ! ان سے محبت فرما! میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔''
6. رسول اللہﷺکی ازواجِ مطہرات کی عزت و احترام بھی حب ِرسولؐ کا لازمی تقاضا ہے بلکہ عین منشاے قرآنی ہے۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶ میں فرمایا:
﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ ''آپ کی ازواج مؤمنوں کی مائیں ہیں۔''
صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالے سے مسلم امہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اُمت کے دو بڑے فرقے وجود میں آگئے۔ اہل سنت اور اہل تشیع۔ اوّل الذکر اگرچہ دونوں کی محبت واحترام کے قائل ہیں، مگر تعصب کی بنا پر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ وہ اہل بیت کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔ دوسری طرف اہل تشیع کبار صحابہ کرام پر(نعوذ باللہ) تبرا بازی کرتے ہیں۔اسلامی عقائد کی رو سے صحابہ کرامؓ، اہل بیت اور ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یکساں طور پر محبت و عقیدت رکھنا لازمی ہے۔ اگر اس معاملے میں فریقین وسعت ِنظر اور وسعت ِقلب سے کام لیں تو حب ِرسولؐ کے نام پر مغائرت دور ہوسکتی اور اُمت متحد ہوسکتی ہے۔
7. تابعین کرامؒ، محدثین عظامؒ اور فقہاے کرامؒ کا احترام
ہر مسلمان کے دل میں ان کی محبت ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے انتہائی مشقتیں اور تکلیفیں اٹھا کر دین ہم تک پہنچایا۔ حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ ان سے بھی محبت کی جائے۔
1. قرآنِ پاک میں ان کا تذکرہ سورئہ توبہ میں کیا گیا ہے
﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ...١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان (صحابہ کرامؓ) کی پیروی کی ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔''
2. رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
''خيرکم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم''
''سب سے بہتر میرا دور ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس دور کے بعد ہیں پھر جو ان سے بعد ہیں۔'' (بخاری ؛۳۶۵۱/ مسلم؛۶۴۱۹)
اس حدیث میں تابعین اور تبع تابعین کی فضیلت ثابت ہے۔
علم کی دنیا میں حدیث کے حوالے سے ان کے کارنامے ایسے عظیم الشان ہیں کہ اَغیار بھی خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگریتھ نے کہا:
''علم حدیث پر مسلمانوں کا فخر کرنا بجا ہے۔''
مستشرق گولڈزیہر نے محدثین کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :
''محدثین نے دنیاے اسلام کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، اندلس سے وسط ایشیا تک کی خاک چھانی اور شہر شہر اور گاؤں گاؤں پیدل سفر کیا تاکہ حدیثیں جمع کریں اور اپنے شاگردوں میں پھیلائیں۔ بلا شبہ رحال (بہت سفر کرنے والے) اور جوال (بہت زیادہ گھومنے والے) جیسے اَلقاب کے مستحق یہی لوگ تھے۔''
8. بدعات سے اجتناب
حب ِرسول ؐ کا تقاضا ہے کہ بدعات سے بچ کر صرف اور صرف سنت رسولؐ کے چشمہ صافی سے فیض حاصل کیا جائے۔
بدعت کی تعریف:ہر وہ عمل بدعت کہلاتا ہے جو ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جائے لیکن شریعت میں اس کی کوئی بنیاد یاثبوت نہ ہو یعنی نہ تو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وہ عمل کیا اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہو۔ ایسا عمل اللہ کے ہاں مردود ہے۔ جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:
''عن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد'' (بخاری تعلیقا: کتاب الاعتصام)
''جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ عمل ردّ ہے۔''
ایک کام کو کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوتے ہیں، ان میں سے انسان جو طریقہ اپناتا ہے گویا وہ اس کو پسند کررہا ہوتا ہے یا وہ اس کو سب سے بہتر جانتا ہے، اسی لئے ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی سنت کے مقابلے میں بدعت کو اپنالے تو گویا اس نے قولِ رسولؐ کو چھوڑ دیا اور بدعت کو ترجیح دی۔ یہ حب ِرسولؐ کے منافی ہے۔ حق یہ ہے کہ سب سے فائق وسربلندسنت رسولؐ ہو اور اس پر عمل کو سعادت سمجھا جائے۔
دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیزیں بدعات ہیں ۔ اُمت کے اندر اختلاف کی اصل جڑ بھی یہی بدعات ہیں۔ اسلام کا اصل چہرہ بدعات کی دبیز تہوں میں چھپ جاتا ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے:
''جب کسی بدعت کو اپنایا جاتا ہے تو ایک سنت اُٹھ جاتی ہے۔'' (احمد:۴؍۱۰۵)
قیامت کے روز بدعتی حوضِ کوثر کے آبِ حیات سے محروم رہیں گے۔ سہل بن سعد روایت کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا :
''میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیشرو ہوں گا۔ جو وہاں آئے گا پانی پئے گا، جو ایک بار پی لے گا اسے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بعض ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانیں گے۔ مگر انہیں مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا۔ میں کہوں گا یہ تو میرے اُمتی ہیں۔ لیکن مجھے بتایا جائے گا: کہ (اے محمدؐ! )آپؐ نہیں جانتے آپؐ کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں۔ پھر میںکہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کیلئے، جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا۔'' (بخاری؛۷۰۵۰)
پس وہ عبادت و ریاضت جو سنت ِرسول ؐ کے مطابق نہ ہو۔ صرف ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار و وظائف جو سنت رسولؐ سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لاحاصل ہیں۔ وہ محنت ومشقت جو حکم رسولؐ کے مطابق نہیں، وہ جہنم کا ایندھن ہے۔
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین صحابہ نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺکے اعمال و عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا تو صحابہ نے اپنے لئے اسے کم جانا اور آپس میں کہنے لگے ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا۔دوسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ جب رسول اللہﷺکو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپؐ نے فرمایا:
''میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں، ترک بھی کرتا ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کئے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ '' (بخاری:۵۰۶۳)
خلاصہ:آخر میں حب ِرسولؐ کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعت ِرسولؐ صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت ِرسولؐ ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے۔ اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو۔ سنت رسولؐ ہر جگہ جار ہونی چاہئے۔ اے اللہ! ہمیں آنحضورﷺ کی سچی اور عملی محبت نصیب فرما۔ آمین! ٭(🌻🌹طالب دعا حافظ احمد لیاقت باجوہ, حافظ عمر لیاقت باجوہ, حمزہ لیاقت باجوہ فیروز پوری, متعلم امام بخاری یونیورسٹی سیالکوٹ🌹🌻
واللہ(🌻🌹محبت رسولﷺ پرجان بھی قربان ہے🌹🌻)
اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعت ِالٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔ مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کردیا۔ سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
'' تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ﴾... سورة الاحزاب
''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ آنحضرتؐ سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)
سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوٰنُكُم وَأَزوٰجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموٰلٌ اقتَرَفتُموها وَتِجـٰرَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِهِ...٢٤﴾... سورة التوبة
''(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔
رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
نبی کریمؐ کا ظاہری وباطنی کمال وجمال
محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں :
«''کان مثل الشمس والقمر» (مسنداحمد:۵؍۱۰۴ )
آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔''
ربیع بنت معوذ آپ ؐ کے بارے میں فرماتی ہیں: «لورأيت الشمس طالعة» (مجمع الزوائد: ۸؍۲۸۰)
اگر تم رسول اللہؐ کو دیکھتے توایسے سمجھتے جیسے سورج نکل رہا ہے۔''
آپؐ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیینؐ، سید المرسلین، امام الاوّلین والآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپؐ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں بلکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں۔ صاحب ِجمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓآپ ؐ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
(پہلی وحی کے موقعہ پر آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا) ''آپؐ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے، درماندوں اور بے کسوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔'' (بخاری :کتاب بدء الوحی حدیث، رقم:۳)
تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپؐ کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتیٰ کہ تمام انبیا میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تنہا آنحضورﷺ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔ بقولِ شاعر
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری !
٭٭ ٭ حب ِ رسولؐ کے تقاضے ٭٭ ٭
رسول اللہﷺکے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اورکچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان سب تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
1. احترام و تعظیم رسولؐ
ع ''ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔'' حب ِ رسولؐ کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسولؐ ہے۔ یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گر ِایمان ہے۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورﷺ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔بلاشبہ جو لوگ رسول اللہﷺکے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ '' (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پربلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکربیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپؐ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ''تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ''میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورﷺسے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔''
(بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
''بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضورﷺکی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہﷺکے اوپر چل پھر رہے ہیں، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔
یہ تو تھا آپؐ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپؐ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپؐ کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپؐ سے صدقِ دل سے محبت کریں، آپؐ کے فرمودات پر عمل کریں، اپنی زندگی میں آپؐ کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں۔جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہﷺکی تعظیم ہے۔
2. حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ
حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
1. ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩﴾... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔
2. حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
''(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)
گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔
3. حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
''یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتاہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔'' (ترمذی؛۲۳۵۰)
گویا جس کے دل میں حب ِرسولؐ ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورﷺکی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے۔
4. فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے :
''من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي في الجنة''
''جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (تاریخ ابن عساکر:۳؍۱۴۵)
5. فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ
6. حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
کل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبٰی قالوا يارسول اﷲ ! ومن يأبی قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبٰی (بخاری؛۷۲۸۰)
''میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا۔''
قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ بات ہمیں سمجھائی ہے۔ مثلاً
1. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤﴾... سورة النساء
''ہم نے رسول بھیجے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔''
2. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورة النساء
''جس نے رسولؐ کی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔''
3. سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
''تم میں سے جو کوئی اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے رسول اللہؐ کی ذات والا صفات میں اچھا نمونہ ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے حب ِرسولؐ کا حق ادا کیا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ قاضی عیاضؒ اپنی کتاب 'الشفائ' میں فرماتے ہیں: فقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ
''سفیان ثوری (تابعی) نے فرمایا کہ حب ِرسولؐ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺہے۔''
بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث ِرسولؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حب رسولﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ کی اطاعت کی جائے۔ وہ محبت جو سنت رسول اللہﷺپر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرمﷺکی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہﷺکی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنت ِرسولؐ کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے۔
یہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست
3. قلبی محبت
تکمیل ایمان کے لئے رسول اللہﷺ کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم ورضا بھی ضروری ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
1. ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء
''نہیں، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کرلیں۔''
2. حضرت حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ
''میں عمرؓ بن خطاب کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر قربانی کے دن طوافِ زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے تو کیا کرے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے۔ حارث نے کہا: رسول اللہﷺنے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو رسول اللہﷺسے پوچھ چکا تھا، تاکہ میں رسول اللہﷺکے خلاف فیصلہ کروں۔'' (صحیح ابوداود؛۱۷۶۰)
سنت کا علم ہونے کے باوجود مسئلہ دریافت کرنے پر حضرت عمرؓ کی ناراضگی اس بنا پر تھی کہ رسول اللہﷺکے فیصلے کو دلی رضا مندی کے ساتھ کیوں نہیں تسلیم کیا۔ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں۔ حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ
3. ''میرے باپ زبیر اور ایک انصاری میں فرہ کے مقام پر پانی پر جھگڑا ہوا۔ آپؐ نے زبیر کو کہا کہ تم اپنے درختوں کو پانی لگا لو۔ پھر اسے ہمسائے کے باغ میں جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا :کیوں نہیں، آخر زبیر آپ کے پھوپھی زاد جو ہوئے (اس لئے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے)... یہ سن کر آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر کو کہا: زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ جب تک پانی منڈیروں پرنہ پہنچ جائے، اس کے لئے پانی نہ چھوڑو۔'' (بخاری؛۴۵۸۵)
یعنی جب انصاری نے آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا تو آپ کو غصہ آگیا تو آپ نے انصاف والا حکم جاری فرمایا۔ جب کہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔
4. رسول اللہﷺکے حکم کی موجودگی میں اپنی مرضی یا کسی دوسرے کے حکم پر عمل کرنے کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔سورۃ الاحزاب میں فرمانِ خداوندی ہے:
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم ۗ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب
''کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولﷺکسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسولؐ کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔''
5. سورۃ الحشر ، آیت نمبر ۷ میں ارشادِ الٰہی ہے :
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ٧﴾... سورة الحشر ''جو کچھ رسولؐ تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈر جاؤ، وہ شدید عذاب دینے والا ہے۔''
گویا آپ کا حکم اور عمل ہی فیصلہ کن سند قرار پائے اور اس حکم کو ماننے یا نہ ماننے اور اس پر ناگواری کے احساس یا عدمِ احساس پر ہی آدمی کے مؤمن ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ٹھہرا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ مؤمن اللہ اور اس کے رسولؐ کے کئے گئے فیصلہ کے متعلق عدم اطمینان کا شائبہ تک دل میں لائے۔آج کے مسلمانوں کواپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ حب ِرسولؐ کے اس تقاضے کو کس حد تک نباہتے ہیں؟
4. اتباعِ رسولﷺ
اتباع اور اطاعت کے معنی میں یہ فرق ہے کہ اطاعت کا مطلب دیے گئے حکم کی تعمیل کرنا ہے مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا ہے ، چاہے اس کام کاباقاعدہ حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔ گویا یہ مقامِ 'خلت' ہے ، انتہاے محبت ہے کہ محبو ب کی ہر ادا پر قربان ہونے کو جی چاہے۔
آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو حضورؐ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضورؐ نے کیا ہوتا۔ ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جو آپؐ کو پسند ہوتا۔ جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہوجاتی اور اس مقام پر وہی عمل انجام دینا وہ اپنی سعادت جانتے ، جیساکہ درج ذیل روایات سے واضح ہوتا ہے:
1. موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میںبعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
2. حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعاے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمؐ کو دیکھا تھا کہ آپؐ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپؐ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضورؐ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود؛۲۶۰۲)
3. حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کدو پسند ہیں۔ تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۳؍۱۷۷)
4. ایک بار آپؐ نے سرکے کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی؛۲۱۸۱)
5. ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپﷺنے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی گویا آپؐ نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ ؐکے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضورﷺنے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا ۔کیونکہ رسول اللہﷺنے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم؛۲۰۹۰)
6. مسجد ِنبوی میں خواتین بھی شریک ِجماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ مخصوص نہ تھا۔ایک روز آپؐ نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ''کاش ہم یہ دروازہ عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے۔'' حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی پابندی کی کہ پھر تادمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے۔ (......)
7. کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ''لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔'' تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد:۵؍۲۷۷)
'اتباع' کا مکمل مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں :
کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جہاں وہ تیز ہوگی، یہ بھی تیز ہوگی۔ جدھر وہ مڑے گی یہ بھی ادھر مڑے گی۔جدھر وہ آہستہ ہوگی، یہ بھی آہستہ ہوجائے گی حتیٰ کہ جہاںوہ رک جائے گی پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی۔ یہ اتباع ہے اور حب ِرسولؐ کا تقاضا صرف اطاعت ِرسولؐ ہی نہیں بلکہ اتباعِ رسولؐ ہے۔
یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب ِرسولؐ کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور نعت ِرسولؐ بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسولؐ سے بالکل تہی دامن ہوگئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کاہر پہلوغور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوئہ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولیٰ میںتھا۔ انہوں نے سچے جذبے، پکے عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔
ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبیؐ کی رسالت اور آپؐ کے واجب الاتباع ہونے میں کسی دوسرے انسان کو لانا درست نہیں۔ نبی کریمﷺ کا ہی یہ مقام ہے کہ آپ معصوم ہیں اور غلطی سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بچا کر رکھا ہے۔ یہ حیثیت آپ کے کسی اُمتی کو حاصل نہیں۔ لیکن بعض لوگ ائمہ کرام کے احترام میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ انہیں بھی نبی کی طرح معصوم سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ نبی کریم کا صریح فرمان آنے کے باوجود وہ اپنے امام کی بات ماننے پر ہی مصر رہتے ہیں۔
ائمہ اربعہ یعنی امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد رحمہم اللہ عنہم کے مدوّن کردہ مسائل اور ان کے بیان کردہ احکامِ دین و شرع درحقیقت اللہ کی کتاب اور سنت ِرسولؐ سے ہی حاصل کردہ ہیں۔ اس و جہ سے ان ائمہ عظام کے بیان کردہ فقہ کے مسائل کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن جب انہیںکوئی صریح نص یعنی کوئی آیت یا حدیث ِصحیح نہ مل سکے تو پھر یہ قیاس واستنباط کرتے ہیں۔ مگر ایسی صورت میں ان سب ائمہ نے اپنے اپنے شاگردوں پر واضح کردیا کہ ''جب حدیث ِرسولؐ مل جائے تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دینا۔''
بڑی مناسب بات تھی جو انہوں نے فرمائی۔ مگر ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت میں ان کے اَقوال کو تو نہ چھوڑا اور احادیث ِرسولؐ کو چھوڑ دیا۔ پھر اسی بنیاد پر اپنے الگ الگ مسلک بنا لئے۔ بے شک یہ سب فروعی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر مسالک وجود میں آئے، مگر اُمت ِمحمدیہؐ میں تو گروہ بندی ہوگئی جس سے قرآن و حدیث نے شدت سے منع فرمایا تھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حب ِرسولؐ سے سرشار ہوکر اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا کی جائے اور حتی المقدوراحادیث ِرسولؐ کو ہی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں بنیاد بنایا جائے۔
آباء پرستی سے اجتناب : اسی طرح اَن پڑھ اور جاہل عوام کی کثیر تعداد اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتی ہے۔ حالانکہ حب ِرسولؐ کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپؐ کے فرمان کے سامنے ہر کسی کی بات ہیچ ہو اور ہر ایسی خاندانی روایت اور معاشرتی چلن، جو کہ اسلام سے متصادم ہیں، چھوڑ دیئے جائیں اور سنت ِرسولؐ کوجاری و ساری کیا جائے۔
1. سورۃ لقمان آیت نمبر۲۱ میں ارشادِ خداوندی ہے :
''جب انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے، ا س کی اتباع کرو تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء کو پایا۔''
2. سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۰ میں فرمایا :
''جب انہیں کہا جائے کہ اس کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں بلکہ ہم اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا۔ اگرچہ ان کے آباء نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں۔''
3. نیز ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۱ میں فرمایا :
''یہ گونگے بہرے اندھے لوگ ہیں۔ یہ جانوروں کا ریوڑ ہیں، ان کو کچھ عقل نہیں۔''
حب ِرسولؐ کی صداقت و سچائی کا معیار یہ ہے کہ سنت ِرسولؐ کے علاوہ ہر طریق کو چھوڑ دیا جائے۔ بعض لوگ ائمہ فقہاء کی تقلید میں غیر مسنون افعال انجام دیتے ہیں اور بعض اپنے آباء و اجداد کی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ سنت سے دوری کی کوئی بھی صورت ہو اس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے۔
5. درود ... صلوٰۃ و سلام
حب ِرسولؐ کے اظہار و اثبات کے لئے لازم ہے کہ جب آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی پڑھنے، سننے یا بولنے میں آئے تو فوراً صلوٰۃ و سلام ورد زبان ہوجائے۔ خود اللہ اور اس کے فرشتے بھی آنحضورؐ پر درود بھیجتے ہیں۔سورۃ احزاب میں ارشاد ہے:
1. ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب
''بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔''
ابوالعالیہؒ نے کہا کہ''اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ کی تعریف فرماتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے مراد ہے کہ وہ آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ ابن عباسؓ کہتے ہیںکہ یصلون کامعنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔'' (بخاری، کتاب التفسیر: باب قولہ ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ النبی)
2. حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں: ''جب تک تو اپنے نبیؐ پر درود نہ بھیجے، دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے ، اوپر نہیں چڑھتی۔'' (صحیح ترمذی للالبانی؛۴۰۳)
3. حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔'' (مسنداحمد:۱؍۲۰۱)
4. ایک بار منبر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے تین بار آپؐ نے آمین آمین آمین کہاتو صحابہؓ کے استفسار پر آپ ؐ نے فر مایا:
''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے تھے۔ تین کاموں کے نہ کرنے والے پر انہوں نے اللہ کی لعنت بتائی تو میں نے ا س پر آمین کہا۔ان باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جس مسلمان کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور میں نے اس پر آمین کہا۔'' (مستدرک حاکم:۴؍۱۵۳ و بخاری)
درود و سلام درحقیقت ایک دعاے رحمت و برکت ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے ذریعے ایمان و اسلام کی عظیم نعمت سے ہم سرفراز ہوئے۔ اس احسان کا بدلہ مسلمان کبھی بھی اُتارنہیںسکتے۔ تاہم اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ اس عظیم ہستی کی محبت سے سرشار ہوکر ان کے حق میں دعائے رحمت و برکت کیا کریں۔مگر اللہ کی رحمت کی انتہا دیکھئے کہ اس عمل کو ہمارے لئے بھی انتہا درجہ باعث اجروثواب بنا دیا۔
5. حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ '' (مجمع الزوائد:۱۰؍۱۶۱)
6. حضرت عبداللہ بن مسعودؓؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا کہ
''قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے والا ہوگا۔'' (فتح الباری:۱۱؍۱۶۷)
درود شریف دراصل ایک مسلمان کا ترانۂ محبت ہے جو وہ اپنے محبوبﷺکے حضور پیش کرتا ہے اورنتیجے میں اپنے لئے بھی درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کی نوید حاصل کرتا ہے۔
آپؐ کے حضور درود کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی محفل ہی برپا کی جائے یا کوئی خاص وقت ہی صرف کیا جائے بلکہ یہ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور خاص طور پر جب آپؐ کا نام کا تذکرہ ہو تو فوری 'صلی اللہ علیہ وسلم' کے مبارک الفاظ کے ساتھ یہ نذرانہ آپؐ کے حضور پیش کردینا چاہئے کہ یہی حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے۔
6. صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی محبت
حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہو۔ کیونکہ آپﷺ کو ان سے محبت تھی۔
1. صحابہ کرامؓ کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ...﴿١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور جو مہاجر اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔''
2. سورۃ الفتح میں صحابہ کرام ؓ کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم ۖ تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا...﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور آپؐ کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں، آپؐ انہیں رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھیں گے۔ یہ اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی ہیں ''
3. رسول اللہﷺنے فرمایا:
''میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خو ف کرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، پس جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے بغض کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ جو انہیں ایذا دے گا اس نے مجھے ایذا دی۔ جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی، اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے گا۔ '' (مسنداحمد:۵؍۵۴)
4. حضرت فاطمہ الزہراؓکے لئے آپؐ نے فرمایا:
''فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔'' (بخاری تعلیقا فی مناقب قرابۃ رسول اللہؐ و مسلم؛۶۲۶۴)
5. حضرت حسنؓ، حسینؓ کے بارے میں فرمایا:
''اللهم أحبهما، إني أحبهما'' (بخاری؛۳۷۴۷)
''اے اللہ! ان سے محبت فرما! میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔''
6. رسول اللہﷺکی ازواجِ مطہرات کی عزت و احترام بھی حب ِرسولؐ کا لازمی تقاضا ہے بلکہ عین منشاے قرآنی ہے۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶ میں فرمایا:
﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ ''آپ کی ازواج مؤمنوں کی مائیں ہیں۔''
صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالے سے مسلم امہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اُمت کے دو بڑے فرقے وجود میں آگئے۔ اہل سنت اور اہل تشیع۔ اوّل الذکر اگرچہ دونوں کی محبت واحترام کے قائل ہیں، مگر تعصب کی بنا پر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ وہ اہل بیت کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔ دوسری طرف اہل تشیع کبار صحابہ کرام پر(نعوذ باللہ) تبرا بازی کرتے ہیں۔اسلامی عقائد کی رو سے صحابہ کرامؓ، اہل بیت اور ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یکساں طور پر محبت و عقیدت رکھنا لازمی ہے۔ اگر اس معاملے میں فریقین وسعت ِنظر اور وسعت ِقلب سے کام لیں تو حب ِرسولؐ کے نام پر مغائرت دور ہوسکتی اور اُمت متحد ہوسکتی ہے۔
7. تابعین کرامؒ، محدثین عظامؒ اور فقہاے کرامؒ کا احترام
ہر مسلمان کے دل میں ان کی محبت ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے انتہائی مشقتیں اور تکلیفیں اٹھا کر دین ہم تک پہنچایا۔ حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ ان سے بھی محبت کی جائے۔
1. قرآنِ پاک میں ان کا تذکرہ سورئہ توبہ میں کیا گیا ہے
﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ...١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان (صحابہ کرامؓ) کی پیروی کی ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔''
2. رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
''خيرکم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم''
''سب سے بہتر میرا دور ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس دور کے بعد ہیں پھر جو ان سے بعد ہیں۔'' (بخاری ؛۳۶۵۱/ مسلم؛۶۴۱۹)
اس حدیث میں تابعین اور تبع تابعین کی فضیلت ثابت ہے۔
علم کی دنیا میں حدیث کے حوالے سے ان کے کارنامے ایسے عظیم الشان ہیں کہ اَغیار بھی خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگریتھ نے کہا:
''علم حدیث پر مسلمانوں کا فخر کرنا بجا ہے۔''
مستشرق گولڈزیہر نے محدثین کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :
''محدثین نے دنیاے اسلام کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، اندلس سے وسط ایشیا تک کی خاک چھانی اور شہر شہر اور گاؤں گاؤں پیدل سفر کیا تاکہ حدیثیں جمع کریں اور اپنے شاگردوں میں پھیلائیں۔ بلا شبہ رحال (بہت سفر کرنے والے) اور جوال (بہت زیادہ گھومنے والے) جیسے اَلقاب کے مستحق یہی لوگ تھے۔''
8. بدعات سے اجتناب
حب ِرسول ؐ کا تقاضا ہے کہ بدعات سے بچ کر صرف اور صرف سنت رسولؐ کے چشمہ صافی سے فیض حاصل کیا جائے۔
بدعت کی تعریف:ہر وہ عمل بدعت کہلاتا ہے جو ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جائے لیکن شریعت میں اس کی کوئی بنیاد یاثبوت نہ ہو یعنی نہ تو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وہ عمل کیا اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہو۔ ایسا عمل اللہ کے ہاں مردود ہے۔ جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:
''عن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد'' (بخاری تعلیقا: کتاب الاعتصام)
''جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ عمل ردّ ہے۔''
ایک کام کو کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوتے ہیں، ان میں سے انسان جو طریقہ اپناتا ہے گویا وہ اس کو پسند کررہا ہوتا ہے یا وہ اس کو سب سے بہتر جانتا ہے، اسی لئے ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی سنت کے مقابلے میں بدعت کو اپنالے تو گویا اس نے قولِ رسولؐ کو چھوڑ دیا اور بدعت کو ترجیح دی۔ یہ حب ِرسولؐ کے منافی ہے۔ حق یہ ہے کہ سب سے فائق وسربلندسنت رسولؐ ہو اور اس پر عمل کو سعادت سمجھا جائے۔
دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیزیں بدعات ہیں ۔ اُمت کے اندر اختلاف کی اصل جڑ بھی یہی بدعات ہیں۔ اسلام کا اصل چہرہ بدعات کی دبیز تہوں میں چھپ جاتا ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے:
''جب کسی بدعت کو اپنایا جاتا ہے تو ایک سنت اُٹھ جاتی ہے۔'' (احمد:۴؍۱۰۵)
قیامت کے روز بدعتی حوضِ کوثر کے آبِ حیات سے محروم رہیں گے۔ سہل بن سعد روایت کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا :
''میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیشرو ہوں گا۔ جو وہاں آئے گا پانی پئے گا، جو ایک بار پی لے گا اسے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بعض ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانیں گے۔ مگر انہیں مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا۔ میں کہوں گا یہ تو میرے اُمتی ہیں۔ لیکن مجھے بتایا جائے گا: کہ (اے محمدؐ! )آپؐ نہیں جانتے آپؐ کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں۔ پھر میںکہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کیلئے، جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا۔'' (بخاری؛۷۰۵۰)
پس وہ عبادت و ریاضت جو سنت ِرسول ؐ کے مطابق نہ ہو۔ صرف ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار و وظائف جو سنت رسولؐ سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لاحاصل ہیں۔ وہ محنت ومشقت جو حکم رسولؐ کے مطابق نہیں، وہ جہنم کا ایندھن ہے۔
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین صحابہ نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺکے اعمال و عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا تو صحابہ نے اپنے لئے اسے کم جانا اور آپس میں کہنے لگے ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا۔دوسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ جب رسول اللہﷺکو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپؐ نے فرمایا:
''میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں، ترک بھی کرتا ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کئے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ '' (بخاری:۵۰۶۳)
خلاصہ:آخر میں حب ِرسولؐ کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعت ِرسولؐ صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت ِرسولؐ ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے۔ اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو۔
اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعت ِالٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔ مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کردیا۔ سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
'' تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ﴾... سورة الاحزاب
''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ حضور صلی الله عليه وسلم سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)
سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوٰنُكُم وَأَزوٰجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموٰلٌ اقتَرَفتُموها وَتِجـٰرَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِهِ...٢٤﴾... سورة التوبة
''(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔
رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
نبی کریمؐ کا ظاہری وباطنی کمال وجمال
محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں :
«''کان مثل الشمس والقمر» (مسنداحمد:۵؍۱۰۴ )
آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔''
ربیع بنت معوذ آپ ؐ کے بارے میں فرماتی ہیں: «لورأيت الشمس طالعة» (مجمع الزوائد: ۸؍۲۸۰)
اگر تم رسول اللہؐ کو دیکھتے توایسے سمجھتے جیسے سورج نکل رہا ہے۔''
آپؐ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیینؐ، سید المرسلین، امام الاوّلین والآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپؐ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں بلکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں۔ صاحب ِجمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓآپ ؐ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
(پہلی وحی کے موقعہ پر آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا) ''آپؐ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے، درماندوں اور بے کسوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔'' (بخاری :کتاب بدء الوحی حدیث، رقم:۳)
تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپؐ کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتیٰ کہ تمام انبیا میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تنہا آنحضورﷺ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔ بقولِ شاعر
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری !
٭٭ ٭ حب ِ رسولؐ کے تقاضے ٭٭ ٭
رسول اللہﷺکے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اورکچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان سب تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
1. احترام و تعظیم رسولؐ
ع ''ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔'' حب ِ رسولؐ کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسولؐ ہے۔ یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گر ِایمان ہے۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورﷺ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔بلاشبہ جو لوگ رسول اللہﷺکے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ '' (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پربلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکربیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپؐ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ''تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ''میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورﷺسے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔''
(بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
''بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضورﷺکی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہﷺکے اوپر چل پھر رہے ہیں، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔
یہ تو تھا آپؐ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپؐ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپؐ کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپؐ سے صدقِ دل سے محبت کریں، آپؐ کے فرمودات پر عمل کریں، اپنی زندگی میں آپؐ کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں۔جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہﷺکی تعظیم ہے۔
2. حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ
حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
1. ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩﴾... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔
2. حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
''(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)
گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔
3. حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
''یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتاہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔'' (ترمذی؛۲۳۵۰)
گویا جس کے دل میں حب ِرسولؐ ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورﷺکی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے۔
4. فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے :
''من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي في الجنة''
''جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (تاریخ ابن عساکر:۳؍۱۴۵)
5. فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ
6. حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
کل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبٰی قالوا يارسول اﷲ ! ومن يأبی قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبٰی (بخاری؛۷۲۸۰)
''میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا۔''
قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ بات ہمیں سمجھائی ہے۔ مثلاً
1. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤﴾... سورة النساء
''ہم نے رسول بھیجے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔''
2. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورة النساء
''جس نے رسولؐ کی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔''
3. سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
''تم میں سے جو کوئی اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے رسول اللہؐ کی ذات والا صفات میں اچھا نمونہ ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے حب ِرسولؐ کا حق ادا کیا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ قاضی عیاضؒ اپنی کتاب 'الشفائ' میں فرماتے ہیں: فقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ
''سفیان ثوری (تابعی) نے فرمایا کہ حب ِرسولؐ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺہے۔''
بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث ِرسولؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حب رسولﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ کی اطاعت کی جائے۔ وہ محبت جو سنت رسول اللہﷺپر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرمﷺکی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہﷺکی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنت ِرسولؐ کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے۔
یہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست
3. قلبی محبت
تکمیل ایمان کے لئے رسول اللہﷺ کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم ورضا بھی ضروری ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
1. ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء
''نہیں، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کرلیں۔''
2. حضرت حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ
''میں عمرؓ بن خطاب کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر قربانی کے دن طوافِ زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے تو کیا کرے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے۔ حارث نے کہا: رسول اللہﷺنے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو رسول اللہﷺسے پوچھ چکا تھا، تاکہ میں رسول اللہﷺکے خلاف فیصلہ کروں۔'' (صحیح ابوداود؛۱۷۶۰)
سنت کا علم ہونے کے باوجود مسئلہ دریافت کرنے پر حضرت عمرؓ کی ناراضگی اس بنا پر تھی کہ رسول اللہﷺکے فیصلے کو دلی رضا مندی کے ساتھ کیوں نہیں تسلیم کیا۔ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں۔ حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ
3. ''میرے باپ زبیر اور ایک انصاری میں فرہ کے مقام پر پانی پر جھگڑا ہوا۔ آپؐ نے زبیر کو کہا کہ تم اپنے درختوں کو پانی لگا لو۔ پھر اسے ہمسائے کے باغ میں جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا :کیوں نہیں، آخر زبیر آپ کے پھوپھی زاد جو ہوئے (اس لئے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے)... یہ سن کر آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر کو کہا: زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ جب تک پانی منڈیروں پرنہ پہنچ جائے، اس کے لئے پانی نہ چھوڑو۔'' (بخاری؛۴۵۸۵)
یعنی جب انصاری نے آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا تو آپ کو غصہ آگیا تو آپ نے انصاف والا حکم جاری فرمایا۔ جب کہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔
4. رسول اللہﷺکے حکم کی موجودگی میں اپنی مرضی یا کسی دوسرے کے حکم پر عمل کرنے کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔سورۃ الاحزاب میں فرمانِ خداوندی ہے:
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم ۗ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب
''کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولﷺکسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسولؐ کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔''
5. سورۃ الحشر ، آیت نمبر ۷ میں ارشادِ الٰہی ہے :
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ٧﴾... سورة الحشر ''جو کچھ رسولؐ تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈر جاؤ، وہ شدید عذاب دینے والا ہے۔''
گویا آپ کا حکم اور عمل ہی فیصلہ کن سند قرار پائے اور اس حکم کو ماننے یا نہ ماننے اور اس پر ناگواری کے احساس یا عدمِ احساس پر ہی آدمی کے مؤمن ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ٹھہرا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ مؤمن اللہ اور اس کے رسولؐ کے کئے گئے فیصلہ کے متعلق عدم اطمینان کا شائبہ تک دل میں لائے۔آج کے مسلمانوں کواپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ حب ِرسولؐ کے اس تقاضے کو کس حد تک نباہتے ہیں؟
4. اتباعِ رسولﷺ
اتباع اور اطاعت کے معنی میں یہ فرق ہے کہ اطاعت کا مطلب دیے گئے حکم کی تعمیل کرنا ہے مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا ہے ، چاہے اس کام کاباقاعدہ حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔ گویا یہ مقامِ 'خلت' ہے ، انتہاے محبت ہے کہ محبو ب کی ہر ادا پر قربان ہونے کو جی چاہے۔
آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو حضورؐ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضورؐ نے کیا ہوتا۔ ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جو آپؐ کو پسند ہوتا۔ جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہوجاتی اور اس مقام پر وہی عمل انجام دینا وہ اپنی سعادت جانتے ، جیساکہ درج ذیل روایات سے واضح ہوتا ہے:
1. موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میںبعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
2. حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعاے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمؐ کو دیکھا تھا کہ آپؐ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپؐ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضورؐ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود؛۲۶۰۲)
3. حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کدو پسند ہیں۔ تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۳؍۱۷۷)
4. ایک بار آپؐ نے سرکے کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی؛۲۱۸۱)
5. ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپﷺنے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی گویا آپؐ نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ ؐکے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضورﷺنے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا ۔کیونکہ رسول اللہﷺنے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم؛۲۰۹۰)
6. مسجد ِنبوی میں خواتین بھی شریک ِجماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ مخصوص نہ تھا۔ایک روز آپؐ نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ''کاش ہم یہ دروازہ عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے۔'' حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی پابندی کی کہ پھر تادمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے۔ (......)
7. کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ''لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔'' تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد:۵؍۲۷۷)
'اتباع' کا مکمل مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں :
کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جہاں وہ تیز ہوگی، یہ بھی تیز ہوگی۔ جدھر وہ مڑے گی یہ بھی ادھر مڑے گی۔جدھر وہ آہستہ ہوگی، یہ بھی آہستہ ہوجائے گی حتیٰ کہ جہاںوہ رک جائے گی پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی۔ یہ اتباع ہے اور حب ِرسولؐ کا تقاضا صرف اطاعت ِرسولؐ ہی نہیں بلکہ اتباعِ رسولؐ ہے۔
یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب ِرسولؐ کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور نعت ِرسولؐ بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسولؐ سے بالکل تہی دامن ہوگئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کاہر پہلوغور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوئہ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولیٰ میںتھا۔ انہوں نے سچے جذبے، پکے عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔
ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبیؐ کی رسالت اور آپؐ کے واجب الاتباع ہونے میں کسی دوسرے انسان کو لانا درست نہیں۔ نبی کریمﷺ کا ہی یہ مقام ہے کہ آپ معصوم ہیں اور غلطی سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بچا کر رکھا ہے۔ یہ حیثیت آپ کے کسی اُمتی کو حاصل نہیں۔ لیکن بعض لوگ ائمہ کرام کے احترام میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ انہیں بھی نبی کی طرح معصوم سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ نبی کریم کا صریح فرمان آنے کے باوجود وہ اپنے امام کی بات ماننے پر ہی مصر رہتے ہیں۔
ائمہ اربعہ یعنی امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد رحمہم اللہ عنہم کے مدوّن کردہ مسائل اور ان کے بیان کردہ احکامِ دین و شرع درحقیقت اللہ کی کتاب اور سنت ِرسولؐ سے ہی حاصل کردہ ہیں۔ اس و جہ سے ان ائمہ عظام کے بیان کردہ فقہ کے مسائل کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن جب انہیںکوئی صریح نص یعنی کوئی آیت یا حدیث ِصحیح نہ مل سکے تو پھر یہ قیاس واستنباط کرتے ہیں۔ مگر ایسی صورت میں ان سب ائمہ نے اپنے اپنے شاگردوں پر واضح کردیا کہ ''جب حدیث ِرسولؐ مل جائے تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دینا۔''
بڑی مناسب بات تھی جو انہوں نے فرمائی۔ مگر ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت میں ان کے اَقوال کو تو نہ چھوڑا اور احادیث ِرسولؐ کو چھوڑ دیا۔ پھر اسی بنیاد پر اپنے الگ الگ مسلک بنا لئے۔ بے شک یہ سب فروعی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر مسالک وجود میں آئے، مگر اُمت ِمحمدیہؐ میں تو گروہ بندی ہوگئی جس سے قرآن و حدیث نے شدت سے منع فرمایا تھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حب ِرسولؐ سے سرشار ہوکر اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا کی جائے اور حتی المقدوراحادیث ِرسولؐ کو ہی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں بنیاد بنایا جائے۔
آباء پرستی سے اجتناب : اسی طرح اَن پڑھ اور جاہل عوام کی کثیر تعداد اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتی ہے۔ حالانکہ حب ِرسولؐ کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپؐ کے فرمان کے سامنے ہر کسی کی بات ہیچ ہو اور ہر ایسی خاندانی روایت اور معاشرتی چلن، جو کہ اسلام سے متصادم ہیں، چھوڑ دیئے جائیں اور سنت ِرسولؐ کوجاری و ساری کیا جائے۔
1. سورۃ لقمان آیت نمبر۲۱ میں ارشادِ خداوندی ہے :
''جب انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے، ا س کی اتباع کرو تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء کو پایا۔''
2. سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۰ میں فرمایا :
''جب انہیں کہا جائے کہ اس کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں بلکہ ہم اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا۔ اگرچہ ان کے آباء نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں۔''
3. نیز ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۱ میں فرمایا :
''یہ گونگے بہرے اندھے لوگ ہیں۔ یہ جانوروں کا ریوڑ ہیں، ان کو کچھ عقل نہیں۔''
حب ِرسولؐ کی صداقت و سچائی کا معیار یہ ہے کہ سنت ِرسولؐ کے علاوہ ہر طریق کو چھوڑ دیا جائے۔ بعض لوگ ائمہ فقہاء کی تقلید میں غیر مسنون افعال انجام دیتے ہیں اور بعض اپنے آباء و اجداد کی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ سنت سے دوری کی کوئی بھی صورت ہو اس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے۔
5. درود ... صلوٰۃ و سلام
حب ِرسولؐ کے اظہار و اثبات کے لئے لازم ہے کہ جب آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی پڑھنے، سننے یا بولنے میں آئے تو فوراً صلوٰۃ و سلام ورد زبان ہوجائے۔ خود اللہ اور اس کے فرشتے بھی آنحضورؐ پر درود بھیجتے ہیں۔سورۃ احزاب میں ارشاد ہے:
1. ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب
''بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔''
ابوالعالیہؒ نے کہا کہ''اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ کی تعریف فرماتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے مراد ہے کہ وہ آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ ابن عباسؓ کہتے ہیںکہ یصلون کامعنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔'' (بخاری، کتاب التفسیر: باب قولہ ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ النبی)
2. حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں: ''جب تک تو اپنے نبیؐ پر درود نہ بھیجے، دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے ، اوپر نہیں چڑھتی۔'' (صحیح ترمذی للالبانی؛۴۰۳)
3. حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔'' (مسنداحمد:۱؍۲۰۱)
4. ایک بار منبر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے تین بار آپؐ نے آمین آمین آمین کہاتو صحابہؓ کے استفسار پر آپ ؐ نے فر مایا:
''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے تھے۔ تین کاموں کے نہ کرنے والے پر انہوں نے اللہ کی لعنت بتائی تو میں نے ا س پر آمین کہا۔ان باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جس مسلمان کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور میں نے اس پر آمین کہا۔'' (مستدرک حاکم:۴؍۱۵۳ و بخاری)
درود و سلام درحقیقت ایک دعاے رحمت و برکت ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے ذریعے ایمان و اسلام کی عظیم نعمت سے ہم سرفراز ہوئے۔ اس احسان کا بدلہ مسلمان کبھی بھی اُتارنہیںسکتے۔ تاہم اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ اس عظیم ہستی کی محبت سے سرشار ہوکر ان کے حق میں دعائے رحمت و برکت کیا کریں۔مگر اللہ کی رحمت کی انتہا دیکھئے کہ اس عمل کو ہمارے لئے بھی انتہا درجہ باعث اجروثواب بنا دیا۔
5. حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ '' (مجمع الزوائد:۱۰؍۱۶۱)
6. حضرت عبداللہ بن مسعودؓؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا کہ
''قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے والا ہوگا۔'' (فتح الباری:۱۱؍۱۶۷)
درود شریف دراصل ایک مسلمان کا ترانۂ محبت ہے جو وہ اپنے محبوبﷺکے حضور پیش کرتا ہے اورنتیجے میں اپنے لئے بھی درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کی نوید حاصل کرتا ہے۔
آپؐ کے حضور درود کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی محفل ہی برپا کی جائے یا کوئی خاص وقت ہی صرف کیا جائے بلکہ یہ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور خاص طور پر جب آپؐ کا نام کا تذکرہ ہو تو فوری 'صلی اللہ علیہ وسلم' کے مبارک الفاظ کے ساتھ یہ نذرانہ آپؐ کے حضور پیش کردینا چاہئے کہ یہی حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے۔
6. صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی محبت
حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہو۔ کیونکہ آپﷺ کو ان سے محبت تھی۔
1. صحابہ کرامؓ کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ...﴿١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور جو مہاجر اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔''
2. سورۃ الفتح میں صحابہ کرام ؓ کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم ۖ تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا...﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور آپؐ کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں، آپؐ انہیں رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھیں گے۔ یہ اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی ہیں ''
3. رسول اللہﷺنے فرمایا:
''میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خو ف کرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، پس جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے بغض کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ جو انہیں ایذا دے گا اس نے مجھے ایذا دی۔ جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی، اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے گا۔ '' (مسنداحمد:۵؍۵۴)
4. حضرت فاطمہ الزہراؓکے لئے آپؐ نے فرمایا:
''فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔'' (بخاری تعلیقا فی مناقب قرابۃ رسول اللہؐ و مسلم؛۶۲۶۴)
5. حضرت حسنؓ، حسینؓ کے بارے میں فرمایا:
''اللهم أحبهما، إني أحبهما'' (بخاری؛۳۷۴۷)
''اے اللہ! ان سے محبت فرما! میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔''
6. رسول اللہﷺکی ازواجِ مطہرات کی عزت و احترام بھی حب ِرسولؐ کا لازمی تقاضا ہے بلکہ عین منشاے قرآنی ہے۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶ میں فرمایا:
﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ ''آپ کی ازواج مؤمنوں کی مائیں ہیں۔''
صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالے سے مسلم امہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اُمت کے دو بڑے فرقے وجود میں آگئے۔ اہل سنت اور اہل تشیع۔ اوّل الذکر اگرچہ دونوں کی محبت واحترام کے قائل ہیں، مگر تعصب کی بنا پر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ وہ اہل بیت کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔ دوسری طرف اہل تشیع کبار صحابہ کرام پر(نعوذ باللہ) تبرا بازی کرتے ہیں۔اسلامی عقائد کی رو سے صحابہ کرامؓ، اہل بیت اور ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یکساں طور پر محبت و عقیدت رکھنا لازمی ہے۔ اگر اس معاملے میں فریقین وسعت ِنظر اور وسعت ِقلب سے کام لیں تو حب ِرسولؐ کے نام پر مغائرت دور ہوسکتی اور اُمت متحد ہوسکتی ہے۔
7. تابعین کرامؒ، محدثین عظامؒ اور فقہاے کرامؒ کا احترام
ہر مسلمان کے دل میں ان کی محبت ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے انتہائی مشقتیں اور تکلیفیں اٹھا کر دین ہم تک پہنچایا۔ حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ ان سے بھی محبت کی جائے۔
1. قرآنِ پاک میں ان کا تذکرہ سورئہ توبہ میں کیا گیا ہے
﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ...١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان (صحابہ کرامؓ) کی پیروی کی ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔''
2. رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
''خيرکم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم''
''سب سے بہتر میرا دور ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس دور کے بعد ہیں پھر جو ان سے بعد ہیں۔'' (بخاری ؛۳۶۵۱/ مسلم؛۶۴۱۹)
اس حدیث میں تابعین اور تبع تابعین کی فضیلت ثابت ہے۔
علم کی دنیا میں حدیث کے حوالے سے ان کے کارنامے ایسے عظیم الشان ہیں کہ اَغیار بھی خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگریتھ نے کہا:
''علم حدیث پر مسلمانوں کا فخر کرنا بجا ہے۔''
مستشرق گولڈزیہر نے محدثین کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :
''محدثین نے دنیاے اسلام کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، اندلس سے وسط ایشیا تک کی خاک چھانی اور شہر شہر اور گاؤں گاؤں پیدل سفر کیا تاکہ حدیثیں جمع کریں اور اپنے شاگردوں میں پھیلائیں۔ بلا شبہ رحال (بہت سفر کرنے والے) اور جوال (بہت زیادہ گھومنے والے) جیسے اَلقاب کے مستحق یہی لوگ تھے۔''
8. بدعات سے اجتناب
حب ِرسول ؐ کا تقاضا ہے کہ بدعات سے بچ کر صرف اور صرف سنت رسولؐ کے چشمہ صافی سے فیض حاصل کیا جائے۔
بدعت کی تعریف:ہر وہ عمل بدعت کہلاتا ہے جو ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جائے لیکن شریعت میں اس کی کوئی بنیاد یاثبوت نہ ہو یعنی نہ تو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وہ عمل کیا اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہو۔ ایسا عمل اللہ کے ہاں مردود ہے۔ جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:
''عن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد'' (بخاری تعلیقا: کتاب الاعتصام)
''جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ عمل ردّ ہے۔''
ایک کام کو کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوتے ہیں، ان میں سے انسان جو طریقہ اپناتا ہے گویا وہ اس کو پسند کررہا ہوتا ہے یا وہ اس کو سب سے بہتر جانتا ہے، اسی لئے ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی سنت کے مقابلے میں بدعت کو اپنالے تو گویا اس نے قولِ رسولؐ کو چھوڑ دیا اور بدعت کو ترجیح دی۔ یہ حب ِرسولؐ کے منافی ہے۔ حق یہ ہے کہ سب سے فائق وسربلندسنت رسولؐ ہو اور اس پر عمل کو سعادت سمجھا جائے۔
دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیزیں بدعات ہیں ۔ اُمت کے اندر اختلاف کی اصل جڑ بھی یہی بدعات ہیں۔ اسلام کا اصل چہرہ بدعات کی دبیز تہوں میں چھپ جاتا ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے:
''جب کسی بدعت کو اپنایا جاتا ہے تو ایک سنت اُٹھ جاتی ہے۔'' (احمد:۴؍۱۰۵)
قیامت کے روز بدعتی حوضِ کوثر کے آبِ حیات سے محروم رہیں گے۔ سہل بن سعد روایت کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا :
''میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیشرو ہوں گا۔ جو وہاں آئے گا پانی پئے گا، جو ایک بار پی لے گا اسے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بعض ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانیں گے۔ مگر انہیں مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا۔ میں کہوں گا یہ تو میرے اُمتی ہیں۔ لیکن مجھے بتایا جائے گا: کہ (اے محمدؐ! )آپؐ نہیں جانتے آپؐ کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں۔ پھر میںکہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کیلئے، جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا۔'' (بخاری؛۷۰۵۰)
پس وہ عبادت و ریاضت جو سنت ِرسول ؐ کے مطابق نہ ہو۔ صرف ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار و وظائف جو سنت رسولؐ سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لاحاصل ہیں۔ وہ محنت ومشقت جو حکم رسولؐ کے مطابق نہیں، وہ جہنم کا ایندھن ہے۔
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین صحابہ نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺکے اعمال و عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا تو صحابہ نے اپنے لئے اسے کم جانا اور آپس میں کہنے لگے ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا۔دوسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ جب رسول اللہﷺکو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپؐ نے فرمایا:
''میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں، ترک بھی کرتا ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کئے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ '' (بخاری:۵۰۶۳)
خلاصہ:آخر میں حب ِرسولؐ کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعت ِرسولؐ صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت ِرسولؐ ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے۔ اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو۔ سنت رسولؐ ہر جگہ جار ہونی چاہئے۔ اے اللہ! ہمیں آنحضورﷺ کی سچی اور عملی محبت نصیب فرما۔ آمین! ٭(🌻🌹طالب دعا حافظ احمد لیاقت باجوہ, حافظ عمر لیاقت باجوہ, حمزہ لیاقت باجوہ فیروز پوری, متعلم امام بخاری یونیورسٹی سیالکوٹ🌹🌻
واللہ(🌻🌹محبت رسولﷺ پرجان بھی قربان ہے🌹🌻)
اس جہانِ رنگ و بو میں شیطان کے حملوں سے بچتے ہوئے شریعت ِالٰہیہ کے مطابق زندگی گزارنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔ مگر اللہ ربّ العزت نے اس کو ہمارے لئے یوں آسان بنا دیا کہ ایمان کی محبت کو ہمارے دلوں میں جاگزیں کردیا۔ سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''
اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
'' تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ﴾... سورة الاحزاب
''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''
عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ آنحضرتؐ سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)
سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخوٰنُكُم وَأَزوٰجُكُم وَعَشيرَتُكُم وَأَموٰلٌ اقتَرَفتُموها وَتِجـٰرَةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَرضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِهِ...٢٤﴾... سورة التوبة
''(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔ یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔
رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
نبی کریمؐ کا ظاہری وباطنی کمال وجمال
محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں :
«''کان مثل الشمس والقمر» (مسنداحمد:۵؍۱۰۴ )
آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔''
ربیع بنت معوذ آپ ؐ کے بارے میں فرماتی ہیں: «لورأيت الشمس طالعة» (مجمع الزوائد: ۸؍۲۸۰)
اگر تم رسول اللہؐ کو دیکھتے توایسے سمجھتے جیسے سورج نکل رہا ہے۔''
آپؐ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النّبیینؐ، سید المرسلین، امام الاوّلین والآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپؐ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں بلکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں۔ صاحب ِجمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓآپ ؐ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
(پہلی وحی کے موقعہ پر آپ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا) ''آپؐ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے، درماندوں اور بے کسوں کو سواری دینے والے، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔'' (بخاری :کتاب بدء الوحی حدیث، رقم:۳)
تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپؐ کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتیٰ کہ تمام انبیا میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تنہا آنحضورﷺ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔ بقولِ شاعر
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری !
٭٭ ٭ حب ِ رسولؐ کے تقاضے ٭٭ ٭
رسول اللہﷺکے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اورکچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان سب تقاضوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
1. احترام و تعظیم رسولؐ
ع ''ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔'' حب ِ رسولؐ کا لازمی اور اہم تقاضا احترامِ رسولؐ ہے۔ یہ تو ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی تو کیا گنجائش ہوتی، یہاں اونچی آواز سے بولنا بھی غارت گر ِایمان ہے۔ سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیات میں آنحضورﷺ کے ادب و احترام کے مختلف پہلو واضح فرمائے گئے ہیں :
''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐسے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔بلاشبہ جو لوگ رسول اللہﷺکے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے، ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اے نبیؐ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ '' (الحجرات : ۱تا۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیسؓ جن کی آواز قدرتی طور پربلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکربیٹھ گئے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپؐ کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ''تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ''میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضورﷺسے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔''
(بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ
''بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدؐ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ '' (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرامؓ کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضورﷺکی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہﷺکے اوپر چل پھر رہے ہیں، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔
یہ تو تھا آپؐ کی زندگی میں صحابہ کرامؓ کا معمول مگر آپؐ کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپؐ کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپؐ سے صدقِ دل سے محبت کریں، آپؐ کے فرمودات پر عمل کریں، اپنی زندگی میں آپؐ کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں۔جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہﷺکی تعظیم ہے۔
2. حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ
حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :
1. ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩﴾... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)
صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔
2. حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ
''(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)
گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔
3. حضرت عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
''یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتاہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔'' (ترمذی؛۲۳۵۰)
گویا جس کے دل میں حب ِرسولؐ ہے، اسے چاہئے کہ آنحضورﷺکی سنت کی پیروی میں اپنے اندر سادگی، صبروتحمل، قناعت اور رضا بالقضا کی صفات پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے۔
4. فرمانِ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے :
''من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني کان معي في الجنة''
''جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔'' (تاریخ ابن عساکر:۳؍۱۴۵)
5. فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:
''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ
6. حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
کل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبٰی قالوا يارسول اﷲ ! ومن يأبی قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبٰی (بخاری؛۷۲۸۰)
''میری اُمت کا ہر شخص جنت میں داخل ہوگا، سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ وہ کون شخص ہے جس نے (جنت میں جانے سے) انکار کیا؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے انکار کیا۔''
قرآنِ مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بار بار یہ بات ہمیں سمجھائی ہے۔ مثلاً
1. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤﴾... سورة النساء
''ہم نے رسول بھیجے ہی اس لئے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔''
2. سورۃ النساء میں فرمایا:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورة النساء
''جس نے رسولؐ کی اطاعت کی دراصل اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔''
3. سورۃ الاحزاب میں فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب
''تم میں سے جو کوئی اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے رسول اللہؐ کی ذات والا صفات میں اچھا نمونہ ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے حب ِرسولؐ کا حق ادا کیا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو۔ قاضی عیاضؒ اپنی کتاب 'الشفائ' میں فرماتے ہیں: فقال سفيان المحبة اتباع رسول اﷲ ﷺ
''سفیان ثوری (تابعی) نے فرمایا کہ حب ِرسولؐ کا مطلب درحقیقت اتباعِ رسول اللہﷺہے۔''
بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث ِرسولؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حب رسولﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ کی اطاعت کی جائے۔ وہ محبت جو سنت رسول اللہﷺپر عمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ محبت جو رسول اکرمﷺکی اطاعت و پیروی نہ سکھائے محض لفاظی اور نفاق ہے۔ وہ محبت جو رسول اللہﷺکی غلامی کے عملی آداب نہ سکھائے محض ریا اور دکھاوا ہے۔ وہ محبت جو سنت ِرسولؐ کے علم کو سربلند نہ کرے محض بولہبی ہے۔
یہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی اوست
3. قلبی محبت
تکمیل ایمان کے لئے رسول اللہﷺ کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم ورضا بھی ضروری ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
1. ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء
''نہیں، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کرلیں۔''
2. حضرت حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ
''میں عمرؓ بن خطاب کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر قربانی کے دن طوافِ زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے تو کیا کرے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے۔ حارث نے کہا: رسول اللہﷺنے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو رسول اللہﷺسے پوچھ چکا تھا، تاکہ میں رسول اللہﷺکے خلاف فیصلہ کروں۔'' (صحیح ابوداود؛۱۷۶۰)
سنت کا علم ہونے کے باوجود مسئلہ دریافت کرنے پر حضرت عمرؓ کی ناراضگی اس بنا پر تھی کہ رسول اللہﷺکے فیصلے کو دلی رضا مندی کے ساتھ کیوں نہیں تسلیم کیا۔ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں۔ حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ
3. ''میرے باپ زبیر اور ایک انصاری میں فرہ کے مقام پر پانی پر جھگڑا ہوا۔ آپؐ نے زبیر کو کہا کہ تم اپنے درختوں کو پانی لگا لو۔ پھر اسے ہمسائے کے باغ میں جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا :کیوں نہیں، آخر زبیر آپ کے پھوپھی زاد جو ہوئے (اس لئے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے)... یہ سن کر آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر کو کہا: زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ جب تک پانی منڈیروں پرنہ پہنچ جائے، اس کے لئے پانی نہ چھوڑو۔'' (بخاری؛۴۵۸۵)
یعنی جب انصاری نے آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا تو آپ کو غصہ آگیا تو آپ نے انصاف والا حکم جاری فرمایا۔ جب کہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔
4. رسول اللہﷺکے حکم کی موجودگی میں اپنی مرضی یا کسی دوسرے کے حکم پر عمل کرنے کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔سورۃ الاحزاب میں فرمانِ خداوندی ہے:
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم ۗ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب
''کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولﷺکسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسولؐ کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔''
5. سورۃ الحشر ، آیت نمبر ۷ میں ارشادِ الٰہی ہے :
﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ٧﴾... سورة الحشر ''جو کچھ رسولؐ تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈر جاؤ، وہ شدید عذاب دینے والا ہے۔''
گویا آپ کا حکم اور عمل ہی فیصلہ کن سند قرار پائے اور اس حکم کو ماننے یا نہ ماننے اور اس پر ناگواری کے احساس یا عدمِ احساس پر ہی آدمی کے مؤمن ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ٹھہرا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ مؤمن اللہ اور اس کے رسولؐ کے کئے گئے فیصلہ کے متعلق عدم اطمینان کا شائبہ تک دل میں لائے۔آج کے مسلمانوں کواپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ حب ِرسولؐ کے اس تقاضے کو کس حد تک نباہتے ہیں؟
4. اتباعِ رسولﷺ
اتباع اور اطاعت کے معنی میں یہ فرق ہے کہ اطاعت کا مطلب دیے گئے حکم کی تعمیل کرنا ہے مگر اتباع کا مطلب پیروی کرنا ہے ، چاہے اس کام کاباقاعدہ حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔ گویا یہ مقامِ 'خلت' ہے ، انتہاے محبت ہے کہ محبو ب کی ہر ادا پر قربان ہونے کو جی چاہے۔
آپؐ کے صحابہ کرامؓ کو حضورؐ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضورؐ نے کیا ہوتا۔ ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جو آپؐ کو پسند ہوتا۔ جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہوجاتی اور اس مقام پر وہی عمل انجام دینا وہ اپنی سعادت جانتے ، جیساکہ درج ذیل روایات سے واضح ہوتا ہے:
1. موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میںبعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ کو اور انہوں نے اپنے والد عمر کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور عمرؓ وہاں اس لئے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
2. حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعاے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمؐ کو دیکھا تھا کہ آپؐ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپؐ مسکرائے تھے۔ لہٰذا میں بھی حضورؐ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود؛۲۶۰۲)
3. حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کدو پسند ہیں۔ تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۳؍۱۷۷)
4. ایک بار آپؐ نے سرکے کے بارے میں فرمایا کہ سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی؛۲۱۸۱)
5. ایک بار ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپﷺنے دیکھی تو آپ نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی گویا آپؐ نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ ؐکے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضورﷺنے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا ۔کیونکہ رسول اللہﷺنے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم؛۲۰۹۰)
6. مسجد ِنبوی میں خواتین بھی شریک ِجماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ مخصوص نہ تھا۔ایک روز آپؐ نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ''کاش ہم یہ دروازہ عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے۔'' حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی پابندی کی کہ پھر تادمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے۔ (......)
7. کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ''لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔'' تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد:۵؍۲۷۷)
'اتباع' کا مکمل مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں :
کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جہاں وہ تیز ہوگی، یہ بھی تیز ہوگی۔ جدھر وہ مڑے گی یہ بھی ادھر مڑے گی۔جدھر وہ آہستہ ہوگی، یہ بھی آہستہ ہوجائے گی حتیٰ کہ جہاںوہ رک جائے گی پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی۔ یہ اتباع ہے اور حب ِرسولؐ کا تقاضا صرف اطاعت ِرسولؐ ہی نہیں بلکہ اتباعِ رسولؐ ہے۔
یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب ِرسولؐ کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور نعت ِرسولؐ بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسولؐ سے بالکل تہی دامن ہوگئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاکؐ کی حیاتِ طیبہ کاہر پہلوغور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوئہ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولیٰ میںتھا۔ انہوں نے سچے جذبے، پکے عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔
ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبیؐ کی رسالت اور آپؐ کے واجب الاتباع ہونے میں کسی دوسرے انسان کو لانا درست نہیں۔ نبی کریمﷺ کا ہی یہ مقام ہے کہ آپ معصوم ہیں اور غلطی سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو بچا کر رکھا ہے۔ یہ حیثیت آپ کے کسی اُمتی کو حاصل نہیں۔ لیکن بعض لوگ ائمہ کرام کے احترام میں اس قدر غلو کرتے ہیں کہ وہ انہیں بھی نبی کی طرح معصوم سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ نبی کریم کا صریح فرمان آنے کے باوجود وہ اپنے امام کی بات ماننے پر ہی مصر رہتے ہیں۔
ائمہ اربعہ یعنی امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور احمد رحمہم اللہ عنہم کے مدوّن کردہ مسائل اور ان کے بیان کردہ احکامِ دین و شرع درحقیقت اللہ کی کتاب اور سنت ِرسولؐ سے ہی حاصل کردہ ہیں۔ اس و جہ سے ان ائمہ عظام کے بیان کردہ فقہ کے مسائل کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن جب انہیںکوئی صریح نص یعنی کوئی آیت یا حدیث ِصحیح نہ مل سکے تو پھر یہ قیاس واستنباط کرتے ہیں۔ مگر ایسی صورت میں ان سب ائمہ نے اپنے اپنے شاگردوں پر واضح کردیا کہ ''جب حدیث ِرسولؐ مل جائے تو ہمارے اقوال کو چھوڑ دینا۔''
بڑی مناسب بات تھی جو انہوں نے فرمائی۔ مگر ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت میں ان کے اَقوال کو تو نہ چھوڑا اور احادیث ِرسولؐ کو چھوڑ دیا۔ پھر اسی بنیاد پر اپنے الگ الگ مسلک بنا لئے۔ بے شک یہ سب فروعی مسائل ہیں جن کی بنیاد پر مسالک وجود میں آئے، مگر اُمت ِمحمدیہؐ میں تو گروہ بندی ہوگئی جس سے قرآن و حدیث نے شدت سے منع فرمایا تھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حب ِرسولؐ سے سرشار ہوکر اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا کی جائے اور حتی المقدوراحادیث ِرسولؐ کو ہی اپنی زندگی کے تمام معاملات میں بنیاد بنایا جائے۔
آباء پرستی سے اجتناب : اسی طرح اَن پڑھ اور جاہل عوام کی کثیر تعداد اپنے آباء و اجداد کی تقلید کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتی ہے۔ حالانکہ حب ِرسولؐ کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپؐ کے فرمان کے سامنے ہر کسی کی بات ہیچ ہو اور ہر ایسی خاندانی روایت اور معاشرتی چلن، جو کہ اسلام سے متصادم ہیں، چھوڑ دیئے جائیں اور سنت ِرسولؐ کوجاری و ساری کیا جائے۔
1. سورۃ لقمان آیت نمبر۲۱ میں ارشادِ خداوندی ہے :
''جب انہیں کہا جائے کہ جو اللہ نے نازل کیا ہے، ا س کی اتباع کرو تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پرہم نے اپنے آباء کو پایا۔''
2. سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۷۰ میں فرمایا :
''جب انہیں کہا جائے کہ اس کی اتباع کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے، تو کہتے ہیں بلکہ ہم اسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا۔ اگرچہ ان کے آباء نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اورنہ ہدایت یافتہ ہوں۔''
3. نیز ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۱ میں فرمایا :
''یہ گونگے بہرے اندھے لوگ ہیں۔ یہ جانوروں کا ریوڑ ہیں، ان کو کچھ عقل نہیں۔''
حب ِرسولؐ کی صداقت و سچائی کا معیار یہ ہے کہ سنت ِرسولؐ کے علاوہ ہر طریق کو چھوڑ دیا جائے۔ بعض لوگ ائمہ فقہاء کی تقلید میں غیر مسنون افعال انجام دیتے ہیں اور بعض اپنے آباء و اجداد کی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ سنت سے دوری کی کوئی بھی صورت ہو اس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے۔
5. درود ... صلوٰۃ و سلام
حب ِرسولؐ کے اظہار و اثبات کے لئے لازم ہے کہ جب آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام نامی پڑھنے، سننے یا بولنے میں آئے تو فوراً صلوٰۃ و سلام ورد زبان ہوجائے۔ خود اللہ اور اس کے فرشتے بھی آنحضورؐ پر درود بھیجتے ہیں۔سورۃ احزاب میں ارشاد ہے:
1. ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب
''بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔''
ابوالعالیہؒ نے کہا کہ''اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے آپ کی تعریف فرماتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے مراد ہے کہ وہ آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ ابن عباسؓ کہتے ہیںکہ یصلون کامعنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔'' (بخاری، کتاب التفسیر: باب قولہ ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ النبی)
2. حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں: ''جب تک تو اپنے نبیؐ پر درود نہ بھیجے، دعا زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتی ہے ، اوپر نہیں چڑھتی۔'' (صحیح ترمذی للالبانی؛۴۰۳)
3. حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔'' (مسنداحمد:۱؍۲۰۱)
4. ایک بار منبر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے تین بار آپؐ نے آمین آمین آمین کہاتو صحابہؓ کے استفسار پر آپ ؐ نے فر مایا:
''میرے پاس جبرائیل ؑ آئے تھے۔ تین کاموں کے نہ کرنے والے پر انہوں نے اللہ کی لعنت بتائی تو میں نے ا س پر آمین کہا۔ان باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جس مسلمان کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور میں نے اس پر آمین کہا۔'' (مستدرک حاکم:۴؍۱۵۳ و بخاری)
درود و سلام درحقیقت ایک دعاے رحمت و برکت ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے ذریعے ایمان و اسلام کی عظیم نعمت سے ہم سرفراز ہوئے۔ اس احسان کا بدلہ مسلمان کبھی بھی اُتارنہیںسکتے۔ تاہم اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ اس عظیم ہستی کی محبت سے سرشار ہوکر ان کے حق میں دعائے رحمت و برکت کیا کریں۔مگر اللہ کی رحمت کی انتہا دیکھئے کہ اس عمل کو ہمارے لئے بھی انتہا درجہ باعث اجروثواب بنا دیا۔
5. حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
''جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ '' (مجمع الزوائد:۱۰؍۱۶۱)
6. حضرت عبداللہ بن مسعودؓؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا کہ
''قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے والا ہوگا۔'' (فتح الباری:۱۱؍۱۶۷)
درود شریف دراصل ایک مسلمان کا ترانۂ محبت ہے جو وہ اپنے محبوبﷺکے حضور پیش کرتا ہے اورنتیجے میں اپنے لئے بھی درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کی نوید حاصل کرتا ہے۔
آپؐ کے حضور درود کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی محفل ہی برپا کی جائے یا کوئی خاص وقت ہی صرف کیا جائے بلکہ یہ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور خاص طور پر جب آپؐ کا نام کا تذکرہ ہو تو فوری 'صلی اللہ علیہ وسلم' کے مبارک الفاظ کے ساتھ یہ نذرانہ آپؐ کے حضور پیش کردینا چاہئے کہ یہی حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے۔
6. صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کی محبت
حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہو۔ کیونکہ آپﷺ کو ان سے محبت تھی۔
1. صحابہ کرامؓ کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ...﴿١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور جو مہاجر اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔''
2. سورۃ الفتح میں صحابہ کرام ؓ کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم ۖ تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا...﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور آپؐ کے ساتھی کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں، آپؐ انہیں رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھیں گے۔ یہ اللہ کے فضل اور رضا کے متلاشی ہیں ''
3. رسول اللہﷺنے فرمایا:
''میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خو ف کرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، پس جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے بغض کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ جو انہیں ایذا دے گا اس نے مجھے ایذا دی۔ جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی، اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے گا۔ '' (مسنداحمد:۵؍۵۴)
4. حضرت فاطمہ الزہراؓکے لئے آپؐ نے فرمایا:
''فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔'' (بخاری تعلیقا فی مناقب قرابۃ رسول اللہؐ و مسلم؛۶۲۶۴)
5. حضرت حسنؓ، حسینؓ کے بارے میں فرمایا:
''اللهم أحبهما، إني أحبهما'' (بخاری؛۳۷۴۷)
''اے اللہ! ان سے محبت فرما! میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔''
6. رسول اللہﷺکی ازواجِ مطہرات کی عزت و احترام بھی حب ِرسولؐ کا لازمی تقاضا ہے بلکہ عین منشاے قرآنی ہے۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶ میں فرمایا:
﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ ''آپ کی ازواج مؤمنوں کی مائیں ہیں۔''
صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالے سے مسلم امہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اُمت کے دو بڑے فرقے وجود میں آگئے۔ اہل سنت اور اہل تشیع۔ اوّل الذکر اگرچہ دونوں کی محبت واحترام کے قائل ہیں، مگر تعصب کی بنا پر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ وہ اہل بیت کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔ دوسری طرف اہل تشیع کبار صحابہ کرام پر(نعوذ باللہ) تبرا بازی کرتے ہیں۔اسلامی عقائد کی رو سے صحابہ کرامؓ، اہل بیت اور ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یکساں طور پر محبت و عقیدت رکھنا لازمی ہے۔ اگر اس معاملے میں فریقین وسعت ِنظر اور وسعت ِقلب سے کام لیں تو حب ِرسولؐ کے نام پر مغائرت دور ہوسکتی اور اُمت متحد ہوسکتی ہے۔
7. تابعین کرامؒ، محدثین عظامؒ اور فقہاے کرامؒ کا احترام
ہر مسلمان کے دل میں ان کی محبت ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے انتہائی مشقتیں اور تکلیفیں اٹھا کر دین ہم تک پہنچایا۔ حب ِرسولؐ کا تقاضا ہے کہ ان سے بھی محبت کی جائے۔
1. قرآنِ پاک میں ان کا تذکرہ سورئہ توبہ میں کیا گیا ہے
﴿وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ...١٠٠﴾... سورة التوبة
''اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان (صحابہ کرامؓ) کی پیروی کی ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔''
2. رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
''خيرکم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم''
''سب سے بہتر میرا دور ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس دور کے بعد ہیں پھر جو ان سے بعد ہیں۔'' (بخاری ؛۳۶۵۱/ مسلم؛۶۴۱۹)
اس حدیث میں تابعین اور تبع تابعین کی فضیلت ثابت ہے۔
علم کی دنیا میں حدیث کے حوالے سے ان کے کارنامے ایسے عظیم الشان ہیں کہ اَغیار بھی خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگریتھ نے کہا:
''علم حدیث پر مسلمانوں کا فخر کرنا بجا ہے۔''
مستشرق گولڈزیہر نے محدثین کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :
''محدثین نے دنیاے اسلام کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، اندلس سے وسط ایشیا تک کی خاک چھانی اور شہر شہر اور گاؤں گاؤں پیدل سفر کیا تاکہ حدیثیں جمع کریں اور اپنے شاگردوں میں پھیلائیں۔ بلا شبہ رحال (بہت سفر کرنے والے) اور جوال (بہت زیادہ گھومنے والے) جیسے اَلقاب کے مستحق یہی لوگ تھے۔''
8. بدعات سے اجتناب
حب ِرسول ؐ کا تقاضا ہے کہ بدعات سے بچ کر صرف اور صرف سنت رسولؐ کے چشمہ صافی سے فیض حاصل کیا جائے۔
بدعت کی تعریف:ہر وہ عمل بدعت کہلاتا ہے جو ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جائے لیکن شریعت میں اس کی کوئی بنیاد یاثبوت نہ ہو یعنی نہ تو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وہ عمل کیا اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہو۔ ایسا عمل اللہ کے ہاں مردود ہے۔ جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:
''عن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد'' (بخاری تعلیقا: کتاب الاعتصام)
''جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ عمل ردّ ہے۔''
ایک کام کو کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوتے ہیں، ان میں سے انسان جو طریقہ اپناتا ہے گویا وہ اس کو پسند کررہا ہوتا ہے یا وہ اس کو سب سے بہتر جانتا ہے، اسی لئے ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی سنت کے مقابلے میں بدعت کو اپنالے تو گویا اس نے قولِ رسولؐ کو چھوڑ دیا اور بدعت کو ترجیح دی۔ یہ حب ِرسولؐ کے منافی ہے۔ حق یہ ہے کہ سب سے فائق وسربلندسنت رسولؐ ہو اور اس پر عمل کو سعادت سمجھا جائے۔
دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیزیں بدعات ہیں ۔ اُمت کے اندر اختلاف کی اصل جڑ بھی یہی بدعات ہیں۔ اسلام کا اصل چہرہ بدعات کی دبیز تہوں میں چھپ جاتا ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے:
''جب کسی بدعت کو اپنایا جاتا ہے تو ایک سنت اُٹھ جاتی ہے۔'' (احمد:۴؍۱۰۵)
قیامت کے روز بدعتی حوضِ کوثر کے آبِ حیات سے محروم رہیں گے۔ سہل بن سعد روایت کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا :
''میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیشرو ہوں گا۔ جو وہاں آئے گا پانی پئے گا، جو ایک بار پی لے گا اسے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بعض ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ بھی مجھے پہچانیں گے۔ مگر انہیں مجھ تک آنے سے روک دیا جائے گا۔ میں کہوں گا یہ تو میرے اُمتی ہیں۔ لیکن مجھے بتایا جائے گا: کہ (اے محمدؐ! )آپؐ نہیں جانتے آپؐ کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں۔ پھر میںکہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کیلئے، جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا۔'' (بخاری؛۷۰۵۰)
پس وہ عبادت و ریاضت جو سنت ِرسول ؐ کے مطابق نہ ہو۔ صرف ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار و وظائف جو سنت رسولؐ سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لاحاصل ہیں۔ وہ محنت ومشقت جو حکم رسولؐ کے مطابق نہیں، وہ جہنم کا ایندھن ہے۔
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین صحابہ نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺکے اعمال و عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا تو صحابہ نے اپنے لئے اسے کم جانا اور آپس میں کہنے لگے ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا۔دوسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ جب رسول اللہﷺکو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپؐ نے فرمایا:
''میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں، ترک بھی کرتا ہوں، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کئے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ '' (بخاری:۵۰۶۳)
خلاصہ:آخر میں حب ِرسولؐ کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعت ِرسولؐ صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت ِرسولؐ ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے۔ اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو۔
Comments
Post a Comment