حلال جانور پر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر بندوق چلایا گیا اور جانور مرگیا ایسے جانور کا گوشت کھانا کیسا ہے
*◆حلال جانور پر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر بندوق چلایا گیا اور جانور مرگیا ایسے جانور کا گوشت کھانا کیسا ہے؟◆*
------------------------------
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و شرع متین مسئلے ذیل کے بارے میں زید نے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر بندوق چلایا
حلال جانور پر اور بندوق کی گولی لگنے کے بعد جانور مر گیا کیا ایسی صورت میں حلال جانور کا گوشت کھانا حلال ہوگا یا پھر حرام؟
مفتیان اکرام تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں ـ
*المستفتی ؛ محمــــد سجاد حسین رضوی گجرات*
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*
*📝الجواب بعونہ تعالی⇩*
اگر وہ زندہ ملا اور اس کو ذبح بھی کیا ہو تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے ورنہ نہیں۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : اگر زندہ پایا اور ذبح کیا، ذبح کے سبب حلال ہوگیا ورنہ ہر گز نہ کھایا جائے، بندوق کا حکم تیر کی مثل نہیں ہوسکتا، یہاں آلہ وہ چاہیے جو اپنی دھار سے قتل کرے۔ اور گولی چھرے میں دھار نہیں، آلہ وہ چاہئے جو کاٹ کرتاہو۔ اوربندوق توڑکرتی ہے نہ کہ کاٹ،ردالمحتارمیں ہے: لایخفی ان الجرح بالرصاص انما ھوبالاحراق والثقل بواسطو اندفاعه العنیف اذ لیس له حد فلا یحل وبه افتی ابن نجیم۔ مخفی نہیں کہ تانبے کی گولی کا زخم جلانے اور ثقل جو شدید دباؤ سے حاصل ہوتے ہیں سے بنتاہے کیونکہ گولی کی دھار نہیں ہوتی، لہذا اس سے حلال نہ ہوگی، اس پر ابن نجیم نے فتوٰی دیا ہے فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے :لایحل صید البندقة وما اشبه ذٰلک و ان خرق لانه لایخرق الا ان یکون شیئ من ذٰلک قد حدد وطوله کالسهم وامکن ان یرمی بهی، فان کان کذٰلک و خرقة بحدہ حل اکله . انتہی، وبه اندفع ماظن بعض اجله علماء کالنفور من الحرمة بالرصاس الکبیر لثقله دون الحبات لخفتها وذٰلک لان مناط الحل لیس ھی الخفة بل الحد والخرق، وبدیہی ان لاشیئ من ذٰلک فی الحبات الا تری الی ماقال فی الدرالمختار لو کانت یعنی البندقة خفیفه بها حدۃ حل حیث لم یقتصر علی الخفة زاد بها حدۃ۔ ولابد من قید اٰخر ترکه وصرحة به وھو من تصیبه بحدھا کما مرعن الا مام فقیہ النسف۔ وھی مسئلة المعراض الشهیرۃ فی الکتب، فالصواب اطلاق المنع. ترجمہ : بندوق وغیرہ کا شکار اگر چہ زخمی ہوجائے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ چیزیں نہیں، ہاں اگر گولی کی لمبی دھار ہو تو تیر کی مانند ہونے کی بناء پر اسکی طرف پھینکی جاسکے اور وہ چیر دے تو اس کا کھانا حلال ہوگا، اھ اس بیان سے کانپور کے بعض اجلہ علماء کا یہ گمان مدفوع ہوگیا کہ بڑی تانبے والی گولی سے حرام ہے کیونکہ وہ بھاری ہوتی ہے اور چھرے دار گولی سے حلال ہوگی کیونکہ چھرے باریک ہوتے ہیں، یہ اس لئے کہ حلت کا مدار خفیف وباریک ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مداردھار دار اور چیرنا ہے اور یہ چیز چھروں یعنی دانوں میں بدیہی طور پر نہیں پائی جاتی، آپ دیکھ نہیں رہے جو درمختار میں فرمایا کہ باریک گولی کی دھار ہو تو حلال ہے یہاں انھوں نے صرف خفت پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ دھار کو زائد ذکر کیا اور ایک اور قید بھی ضروری جس کو واضح ہونے کی وجہ سے ذکر نہ کیا وہ یہ کہ دھار لگنے سے زخمی ہو جیسا کہ اما م فقیہ النفس (قاضی خاں) کا کلام گزرا، اور کتب میں معراض کے عنوان سے یہ مسئلہ مشہور ہے تویہی درست ہے کہ گولی کا شکار مطلقا منع ہے۔ ( جلد 20 صفحہ
Comments
Post a Comment