ام المٶمنین سیدہ خدیجة الکبری

 ام المٶمنین سیدہ خدیجة الکبری ، سیرت مصطفیٰ کا اہم باب  ۔

    


    اشکررضا لطفی مصباحی


ام المٶمنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال قبل ٥٥٥ عیسوی میں ہوٸی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حبالہ زوجیت میں آنے سے قبل آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح دوبار ہوچکاتھا،  پہلی شادی ہند بن نباش تمیمی سے ، دوسری شادی عتیق بن عابد مخزومی سے اور آخر میں سرور کاٸنات سے ۔


یہ اس وقت کی بات ہے جب مکہ کا ہر ایک گھر اور ہر فرد تاجدار کاٸنات کی صداقت کی گواہی دےرہاتھا ، آپ کی خوبیوں سے ہر کان آشنا تھا ،ہر دل آپ کو صادق ومصدوق کہہ رہاتھا ، ملوکیت آپ کے قدموں کا بوسہ لے رہی تھی ، اور کیوں نہ ہو کہ آپ کے قدم عزت سے کاٸنات انسانی کی آبرو وابستہ ہے ، عنفوان شباب کا عالم تھا ، حسن وجمال کی تمام تر رعناٸیاں اور رونقیں سمٹ کر آپ کے قدموں میں آگٸی تھیں ، دنیا بھر  کی خوب صورتی آپ کے چہرہ زیبا کی خیرات مانگ رہی تھی ،  آپ کا بے داغ کردار دنیا کے سامنے تھا ،  ع؂ 

 وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا 

شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری 


  مکہ کی ہر عورت، جذبہ اشتیاق زوجیت سے تڑپ رہی تھی ، عین اس عالم میں اور پچیس سال کی کڑیل جوانی میں، چالیس سالہ بیوہ  خاتون سے نکاح فرماکر،  عورتوں کے مقام کو اس طرح اجاگر کیا کہ تاریخ انسانی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔(یہیں سے وہ اعتراض بھی ھباءً منثورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے،  جو مستشرقین نے آپ کی حیات طیبہ کے اخیر عمر میں تعدد ازواج پر لگایا ہے )


   یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حکمراں، اقتدار پر قابض ہوتے ہی مطلق العنانی کا ثبوت فراہم کرنے لگتے ہیں ، ان کے قوانین ان کی ذاتی مفاد تک محدود رہتے ہیں ، ان کے اقوال ان کے ا فعال سے متصادم نظر آتے ہیں ، 

تنہاٸی میں کچھ ، مجلس میں کچھ ، ایوانوں میں کچھ ، عوامی میٹنگ میں کچھ ، یعنی ان کی زندگی کا ہرہر لمحہ ان کے قول سے بالکل مختلف نظر آتا ہے ، نتیجتاً، عوام میں اضطراب کی لہر دوڑ جاتی ہے ، لوگ بغاوت پر اتر آتے ہیں،  یہی وجہ ہے کہ حکومتیں بدل دی جاتی ہیں ، کبھی تو ان حکمرانوں کی زندگی ہی میں ان کا تخت پلٹ دیاجاتاہے ، جیساکہ بہت سارے ممالک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے ، اور ہمارا ملک بھارت بھی اسی راہ پر ہے ، اور کبھی ان حکمرانوں کے  ظلم وجبر کے خوف سے ان کی زندگی میں تو نہیں،  لیکن ان کے مرنے کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ان قوانین کی خلاف ورزی قولاً اور عملاً کرنے لگتے ہیں ۔

لیکن آج تک کسی مسلمان کے اندر اتنی جرات نہ ہوسکی کہ، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولے ، بولنا تو دور،  ایک لفظ،  بلکہ ایک جملہ بِھی ایسا سنناگوارہ نہیں کرتا جس میں اہانت نبوی کا پہلو نکلتا ہو ، کیوں کہ اللہ کے حبیب نے جہاں احکام کے نفاذ کا حکم دیا ، وہیں اس پر عمل کرکے بھی دکھایا (اس کی ہزاروں مثالیں ہیں)

         ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا،  ایسے عالم میں آپ کی زوجیت میں آئیں اور آپ ﷺ کے ساتھ ہر طرح کی تکلیف واذیت کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا حتیٰ کہ آپ ، مکہ کی امیر ترین خاتون ، ہوتے بھی شعب ابی طالب میں تین سالوں تک اللہ کے حبیب کے ساتھ محصور رہیں ۔

    حضور اکرمﷺ کی ساری اولاد سواے حضرت ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہوئے ، حضرت خدیجہ ہی سے تھی (سیرت ابن ہشام ج۱ص۲۰۲وعام کتب سیرت )

حضرت خدیجہ کا اللہ کے رسولﷺ کے دل میں وہ مقام تھا کہ اپنا عالم شباب انہیں کے ساتھ گذاردیا ، حضرت خدیجہ سرور کائنات کو اتنی پیاری تھیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان پر رشک فرمایا کرتی تھیں ، خود فرماتی ہیں کہ ایک روز میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ)! خدیجہ ایک بوڑھی عورت ہی تو تھیں  ؟ آپ انہیں اس قدر کیوں یاد فرماتے ہیں ؟ حالاں کہ اللہ نے آپ کو ان کا نعم البدل عطا فرمایا ہے ( نعم البدل سے خود کی طرف اشارہ کیا ) اللہ کے رسول کے چہرے پر غضب وناراضی کے آثار نمایاں ہوگئے اور آپ نے فرمایا ’’ نہیں خدا کی قسم اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا نعم البدل عطانہیں فرمایا ، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب دوسرے لوگوں نے کفر کیا ، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب دوسرے لوگ میرے تکذیب کررہے تھے ، انہوں نے اس وقت اپنے مال سے میری مدد کی جب دوسرے لوگ میری مدد نہیں کررہےتھے ، اور اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں کے برعکس ان کے بطن سے مجھے اولاد عطافرمائی (ضیاء النبی ج ۷ ص۴۹۳)


آپ کی فضیلت میں بہت ساری احادیث مروی ہیں۔ 

ام المؤمنین حضرت خدیجہ ( اور جناب ابوطالب) کے انتقال سے آپ ﷺ کو وہ تکلیف پہونچی کہ اس سال کا نام ہی ’’ عام الحزن ‘‘ ہوگیا ۔


      اہل اسلام  کی   مادران شفیق 

      بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام۔

Comments

Popular posts from this blog

Huzoor sallallahu alaihi wasallam ke bare me

allah ta aala naraz ho to kiya hota hai

Nabi aur rasool kise kahte hain