اجتماعی نیاز یا تجارت??
اجتماعی نیاز یا تجارت؟؟؟
از: محمد انعام الله رضوی سبحانی
پرانے و معمولی کپڑوں میں ملبوس چھوٹا زید گھر میں کھیل رہا تھا تبھی امی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی بیٹا زید نیاز بٹنے لگی ہوگی جاؤ جلدی سے لے کر آؤ ورنہ ختم ہو جائے گی ابھی تین دن پہلے ہی کی تو بات ہے جب محلے کے چند افراد کاپی اور قلم لیے سینہ تانے ہر ایک دروازے پر بڑے رعب سے دستک دیتے اور چندہ طلب کرتے کوئی بخوشی دیتا تو کوئی مجبورا کہ نہ دیا تو لوگ کیا کہیں گے کسی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مشکل سے کچھ نوٹ ملے مرتا کیا نہ کرتا چندہ تو دینا ہی تھا نہ دیتا تو چندہ کرنے والے حضرات طعنوں سے مشکل ہی کھڑی کر دیتے کچھ افراد جو صاحب استطاعت و حیثیت تھے انہوں نے پانچ سو کے نوٹ ہوا میں مسلسل لہراتے ہوئے غریب پڑوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس انداز سے عطا کیا گویا کہ اسے نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہوں چندہ کرنے والے افراد بھی چندہ دینے والوں کا نام مع رقم کاپی میں درج کر لیتے بالآخر چندہ اکٹھا کیا گیا اور کسی بزرگ صاحب کے نام نیاز کی غرض سے رات ہی میں دیگوں کا انتظام ہوا کسی صاحب نے اپنے دروازے کے باہر کسی ضرورت سے کچھ لکڑیاں جمع کر رکھی تھیں ان کی عدم موجودگی میں بغیر اطلاع انہیں بھی اڑا لیا گیا کہ نیاز کے لیے جلائیں گے کوئی غلط کام تھوڑی کر رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ دیگوں کے انتظام اور پکنے والی نیاز کی اشیاء کے اہتمام میں بیچارے اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عشاء کے لیے بھی فرصت نہ ملی دیگیں چولہوں پر چڑھا دی گئیں اور کسی صاحب نے اپنے گھر کا لاؤڈ اسپیکر بطور نذر نیاز تیار کرنے والوں کی خدمت میں پیش کر دیا پھر کیا تھا خوب جم کر قوالیاں بجیں محلے والے بیچارے عورت، مرد، بوڑھے، بچے، جوان حالت نیند میں قوالی کا لطف لیتے رہے اور کیا کرتے کس میں ہمت تھی جو جا کر راہ خدا میں جہاد کرنے والوں سے بحث کرتا ارے بھئی صبح نیاز بھی تو کھانی تھی فجر تک نیاز تیار ہوئی مجاہدین کے قدم فجر کی اذان سے حرکت میں تو آئے مگر کیا کرتے مسجد کی طرف بڑھتے تو بڑھتے کیسے کس قدر تکان اور نیند کا غلبہ تھا پوری رات جہاد میں گزاری اب کیا نماز بھی پڑھیں کچھ کے قدم تو مسجد کے صدر دوازے سے ہوتے ہوئے گھر کی طرف مجبوراً بڑھ گیے اور پھر وہ وقت آ ہی گیا جب جنگی پیمانے پر نیاز بٹنے کا آغاز ہوا زید بھی ایک برتن لیے جائے تقسیم پر پہونچا تو دیکھا ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے تقسیم کرنے والوں سے متصل ہی ایک شخص کاپی لے کر نام پڑھتا جا رہا ہے اور تقسیم کرنے والا اس کے اشارے پر لوگوں کے برتن میں نیاز ڈالتا جا رہا ہے ایک جانب نیاز سے بھرے کچھ تھیلے بھی رکھے ہوئے تھے قریب جا کر معلوم ہوا یہ ان رؤساء کے لیے ہیں جنہوں نے موٹی رقم عنایت کی ہے اور قطار میں لگنے سے ان کی عزت و حرمت داغدار ہو جائے گی لہذا ان کے لیے مفت ہوم ڈلیوری کا انتظام ہے زید بھی قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا تبھی ایک منتظم صاحب نے بلند آواز سے ایک ممبر کو پکارا اور کہا کہ چونکہ فلاں صاحب نے ایک ہزار روپے دیے تھے لہذا ان کے گھر دو تھیلی پہنچائی جائے اور فلاں صاحب نے معمولی رقم دی تھی لہذا وہ صرف آدھی تھیلی نیاز کے مستحق ہیں تقیسم نیاز کا یہ عدل و انصاف شاید ہی آپ کو کسی اور معاشرے میں نظر آئے کچھوے کی رفتار چلتے ہوئے زید بھی دیگ کے پاس پہنچ ہی گیا اور اپنا برتن بڑھایا قبل اس کے کہ اس کے دامن گوہر مراد سے بھرتے ایک منتظم نے چیخ کر تقسیم کار کو ڈانٹتے ہوئے تاکید کی کہ یہ کیا غضب کر رہے ہو اس بچے کے گھر سے ہمیں کوئی چندہ موصول نہیں ہوا لہذا نیاز میں اس کا کوئی حصہ نہیں یہ کہتے ہوئے اسے قطار سے بھی علیحدہ کر دیا گیا زید منت و سماجت کرتا رہا مگر اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی بار بار اصرار کے سبب منتظم صاحب تیوریاں چڑھا کر یوں نرمی سے گویا ہوئے کہ ابے نکلتا ہے کہ دوں ایک چماٹ بظاہر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ زید خالی لوٹ رہا تھا مگر غور سے دیکھنے والوں کی مانیں تو زید خالی نہیں لوٹا بلکہ اس کی دونوں آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
دوستو! یہ اس معاشرے کا دکھ ہے کہ جس میں مخلص شاعر یوں نظم پڑھتا ہے کہ ہم تو عاشق رسول ہیں خواجہ کی چھٹی منانے والے ہیں ہمیں دیکھ کر تو جہنم بھی تھر تھر کانپے گا اور اسے بھی پسینہ آئے گا اور دونا تین گنا مخلص خطیب محض رضائے خدا و رسول صلی الله عليه وسلم کے لیے خدمت دین کرنے والا دوران خطاب یوں گویا ہوتا ہے کہ جو میری تقریر کے دوران ہاتھ اٹھا کر سبحان الله کہے گا میں اسکے کان پکڑ کر جنت میں لے جاؤنگا ایک پروگرام میں میری شرکت ہوئی تو ناظم اجلاس نے کہا جو ہاتھ اٹھا کر سبحان الله کہے گا وہ فالج سے محفوظ رہے گا میں نے دل ہی دل کہا گویا کہ اگر کوئی نہ اٹھا سکا تو اسے فالج ہونے کے امکانات زیادہ ہیں میں نے اپنے بغل میں بیٹھے شخص سے کہا کہ سستی مت کرو ہاتھ اٹھاؤ فالج سے بچنا ہے یا نہیں اس نے فورا اپنے ہاتھ ہوا میں کھڑے کر دیے۔ ہمارے معاشرے میں شعراء و مقررین نے مستحبات پر اس قدر بشارتیں کہ جس قدر بشارتیں شریعت میں بھی وارد نہ ہوئیں اور ترک جواز پر اس قدر وعیدیں کہ شرع شریف میں وارد نہ ہوئیں پیش کر دی ہیں کہ لوگ فرائض و واجبات کو چھوڑ کر جائز و مستحبات پر جنون کی حد تک عمل کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نیاز بھی ہے کہ اولا اس کے لیے اعلی پیمانے پر چندے کا اہتمام پھر ہر ایک سے بالرضا یا بالجبر وصولی کہ اگر کوئی مجبورا نہ دے سکے تو اس پر لعن طعن اب کیا منتظمین اس گمان میں ہیں کہ اس طرز سے وصول کیے گیے چندے سے جس بزرگ ہستی کی بارگاہ میں نذر پیش کریں گے وہ قبول فرما لیں گے اگر اس خیال میں ہیں تو واقعی یہ ان کی خام خیالی اور خوش فہمی ہے میں کہتا اگر آپ نذر پیش کرنا چاہتے ہیں تو جو آپ کی استطاعت ہے اس کے مطابق اہتمام کریں اب چاہے وہ اعلی پیمانے پر ہو یا ادنی اس طریقے سے چندہ کر کے اعلی پیمانے پر نیاز کرنا آپ کے لیے وبال تو بن سکتا ہے جنت کا ٹکٹ نہیں ہو سکتا پھر ہوتا یوں ہے کہ جس قدر رقم اکٹھا کی گئی ہے کچھ ہی تنظیمیں ہیں جو پوری رقم نیاز میں صرف کرتی ہیں ورنہ کچھ تو وہ ہیں جو کچھ رقم نیاز میں لگا کر کچھ بچا لیتی ہیں اور پھر انہیں پیسوں سے عیش کرتی ہیں جبکہ حکم شرع ہے کہ چندہ جس مقصد میں اکٹھا کیا گیا اسی میں صرف کیا جائے کسی اور کام میں نہ لایا جائے اور جو رقم تکمیل مقصد کے بعد بچ رہے وہ چندہ دینے والوں کو لوٹا دی جائے یا کسی اور مصرف میں لانے کے لیے ان سے اجازت لے لی جائے مگر آج کے دور میں تو شریعت کا حکم ایک طرف اور طبیعت کا ایک طرف ترجیح تو طبیعت کو دی جاتی ہے پھر نیاز کی تیاری میں رات بھر جو شور شرابا ہوتا ہے سو الگ کئی مقامات پر تو لاؤڈ سپیکر اور میوزک سسٹم کا انتظام ہوتا ہے اہل محلہ کی نیندیں حرام ہوتی ہیں تو ہوں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا یاد رکھیں نیاز مستحب ہے اور ایذائے مسلم حرام مستحب پر عمل کریں مگر اس کے ساتھ حرام کو شامل نہ کریں کچھ تو خدا کا خوف کریں اور پھر تقسیم نیاز کا مسئلہ کہ جس میں لوگوں کی جانب سے دی گئی رقم کا خاص خیال رکھتے ہوئے تقسیم کو عمل میں لایا جاتا ہے اور جو کچھ نہ دے سکا اسے محروم کر دیا جاتا ہے میں کہتا ہوں جو کچھ نہ دے سکا اسے تو اوروں کی بنسبت زیادہ ہی دیجئے کیونکہ وہ زیادہ مستحق ہے نذر و نیاز میں زیادہ حق غرباء و مساکین کا ہے نا کہ امراء و اغنیاء کا مگر معاملہ اس کے بر عکس ہے۔
یہی وہ تمام صورتیں ہیں کہ بسا اوقات زبان حال سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں کہ یہ نیاز ہے یا تجارت؟
✍ محمد انعام الله رضوی سبحانی
9867328854
از: محمد انعام الله رضوی سبحانی
پرانے و معمولی کپڑوں میں ملبوس چھوٹا زید گھر میں کھیل رہا تھا تبھی امی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی بیٹا زید نیاز بٹنے لگی ہوگی جاؤ جلدی سے لے کر آؤ ورنہ ختم ہو جائے گی ابھی تین دن پہلے ہی کی تو بات ہے جب محلے کے چند افراد کاپی اور قلم لیے سینہ تانے ہر ایک دروازے پر بڑے رعب سے دستک دیتے اور چندہ طلب کرتے کوئی بخوشی دیتا تو کوئی مجبورا کہ نہ دیا تو لوگ کیا کہیں گے کسی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مشکل سے کچھ نوٹ ملے مرتا کیا نہ کرتا چندہ تو دینا ہی تھا نہ دیتا تو چندہ کرنے والے حضرات طعنوں سے مشکل ہی کھڑی کر دیتے کچھ افراد جو صاحب استطاعت و حیثیت تھے انہوں نے پانچ سو کے نوٹ ہوا میں مسلسل لہراتے ہوئے غریب پڑوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس انداز سے عطا کیا گویا کہ اسے نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہوں چندہ کرنے والے افراد بھی چندہ دینے والوں کا نام مع رقم کاپی میں درج کر لیتے بالآخر چندہ اکٹھا کیا گیا اور کسی بزرگ صاحب کے نام نیاز کی غرض سے رات ہی میں دیگوں کا انتظام ہوا کسی صاحب نے اپنے دروازے کے باہر کسی ضرورت سے کچھ لکڑیاں جمع کر رکھی تھیں ان کی عدم موجودگی میں بغیر اطلاع انہیں بھی اڑا لیا گیا کہ نیاز کے لیے جلائیں گے کوئی غلط کام تھوڑی کر رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ دیگوں کے انتظام اور پکنے والی نیاز کی اشیاء کے اہتمام میں بیچارے اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عشاء کے لیے بھی فرصت نہ ملی دیگیں چولہوں پر چڑھا دی گئیں اور کسی صاحب نے اپنے گھر کا لاؤڈ اسپیکر بطور نذر نیاز تیار کرنے والوں کی خدمت میں پیش کر دیا پھر کیا تھا خوب جم کر قوالیاں بجیں محلے والے بیچارے عورت، مرد، بوڑھے، بچے، جوان حالت نیند میں قوالی کا لطف لیتے رہے اور کیا کرتے کس میں ہمت تھی جو جا کر راہ خدا میں جہاد کرنے والوں سے بحث کرتا ارے بھئی صبح نیاز بھی تو کھانی تھی فجر تک نیاز تیار ہوئی مجاہدین کے قدم فجر کی اذان سے حرکت میں تو آئے مگر کیا کرتے مسجد کی طرف بڑھتے تو بڑھتے کیسے کس قدر تکان اور نیند کا غلبہ تھا پوری رات جہاد میں گزاری اب کیا نماز بھی پڑھیں کچھ کے قدم تو مسجد کے صدر دوازے سے ہوتے ہوئے گھر کی طرف مجبوراً بڑھ گیے اور پھر وہ وقت آ ہی گیا جب جنگی پیمانے پر نیاز بٹنے کا آغاز ہوا زید بھی ایک برتن لیے جائے تقسیم پر پہونچا تو دیکھا ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے تقسیم کرنے والوں سے متصل ہی ایک شخص کاپی لے کر نام پڑھتا جا رہا ہے اور تقسیم کرنے والا اس کے اشارے پر لوگوں کے برتن میں نیاز ڈالتا جا رہا ہے ایک جانب نیاز سے بھرے کچھ تھیلے بھی رکھے ہوئے تھے قریب جا کر معلوم ہوا یہ ان رؤساء کے لیے ہیں جنہوں نے موٹی رقم عنایت کی ہے اور قطار میں لگنے سے ان کی عزت و حرمت داغدار ہو جائے گی لہذا ان کے لیے مفت ہوم ڈلیوری کا انتظام ہے زید بھی قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا تبھی ایک منتظم صاحب نے بلند آواز سے ایک ممبر کو پکارا اور کہا کہ چونکہ فلاں صاحب نے ایک ہزار روپے دیے تھے لہذا ان کے گھر دو تھیلی پہنچائی جائے اور فلاں صاحب نے معمولی رقم دی تھی لہذا وہ صرف آدھی تھیلی نیاز کے مستحق ہیں تقیسم نیاز کا یہ عدل و انصاف شاید ہی آپ کو کسی اور معاشرے میں نظر آئے کچھوے کی رفتار چلتے ہوئے زید بھی دیگ کے پاس پہنچ ہی گیا اور اپنا برتن بڑھایا قبل اس کے کہ اس کے دامن گوہر مراد سے بھرتے ایک منتظم نے چیخ کر تقسیم کار کو ڈانٹتے ہوئے تاکید کی کہ یہ کیا غضب کر رہے ہو اس بچے کے گھر سے ہمیں کوئی چندہ موصول نہیں ہوا لہذا نیاز میں اس کا کوئی حصہ نہیں یہ کہتے ہوئے اسے قطار سے بھی علیحدہ کر دیا گیا زید منت و سماجت کرتا رہا مگر اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی بار بار اصرار کے سبب منتظم صاحب تیوریاں چڑھا کر یوں نرمی سے گویا ہوئے کہ ابے نکلتا ہے کہ دوں ایک چماٹ بظاہر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ زید خالی لوٹ رہا تھا مگر غور سے دیکھنے والوں کی مانیں تو زید خالی نہیں لوٹا بلکہ اس کی دونوں آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
دوستو! یہ اس معاشرے کا دکھ ہے کہ جس میں مخلص شاعر یوں نظم پڑھتا ہے کہ ہم تو عاشق رسول ہیں خواجہ کی چھٹی منانے والے ہیں ہمیں دیکھ کر تو جہنم بھی تھر تھر کانپے گا اور اسے بھی پسینہ آئے گا اور دونا تین گنا مخلص خطیب محض رضائے خدا و رسول صلی الله عليه وسلم کے لیے خدمت دین کرنے والا دوران خطاب یوں گویا ہوتا ہے کہ جو میری تقریر کے دوران ہاتھ اٹھا کر سبحان الله کہے گا میں اسکے کان پکڑ کر جنت میں لے جاؤنگا ایک پروگرام میں میری شرکت ہوئی تو ناظم اجلاس نے کہا جو ہاتھ اٹھا کر سبحان الله کہے گا وہ فالج سے محفوظ رہے گا میں نے دل ہی دل کہا گویا کہ اگر کوئی نہ اٹھا سکا تو اسے فالج ہونے کے امکانات زیادہ ہیں میں نے اپنے بغل میں بیٹھے شخص سے کہا کہ سستی مت کرو ہاتھ اٹھاؤ فالج سے بچنا ہے یا نہیں اس نے فورا اپنے ہاتھ ہوا میں کھڑے کر دیے۔ ہمارے معاشرے میں شعراء و مقررین نے مستحبات پر اس قدر بشارتیں کہ جس قدر بشارتیں شریعت میں بھی وارد نہ ہوئیں اور ترک جواز پر اس قدر وعیدیں کہ شرع شریف میں وارد نہ ہوئیں پیش کر دی ہیں کہ لوگ فرائض و واجبات کو چھوڑ کر جائز و مستحبات پر جنون کی حد تک عمل کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نیاز بھی ہے کہ اولا اس کے لیے اعلی پیمانے پر چندے کا اہتمام پھر ہر ایک سے بالرضا یا بالجبر وصولی کہ اگر کوئی مجبورا نہ دے سکے تو اس پر لعن طعن اب کیا منتظمین اس گمان میں ہیں کہ اس طرز سے وصول کیے گیے چندے سے جس بزرگ ہستی کی بارگاہ میں نذر پیش کریں گے وہ قبول فرما لیں گے اگر اس خیال میں ہیں تو واقعی یہ ان کی خام خیالی اور خوش فہمی ہے میں کہتا اگر آپ نذر پیش کرنا چاہتے ہیں تو جو آپ کی استطاعت ہے اس کے مطابق اہتمام کریں اب چاہے وہ اعلی پیمانے پر ہو یا ادنی اس طریقے سے چندہ کر کے اعلی پیمانے پر نیاز کرنا آپ کے لیے وبال تو بن سکتا ہے جنت کا ٹکٹ نہیں ہو سکتا پھر ہوتا یوں ہے کہ جس قدر رقم اکٹھا کی گئی ہے کچھ ہی تنظیمیں ہیں جو پوری رقم نیاز میں صرف کرتی ہیں ورنہ کچھ تو وہ ہیں جو کچھ رقم نیاز میں لگا کر کچھ بچا لیتی ہیں اور پھر انہیں پیسوں سے عیش کرتی ہیں جبکہ حکم شرع ہے کہ چندہ جس مقصد میں اکٹھا کیا گیا اسی میں صرف کیا جائے کسی اور کام میں نہ لایا جائے اور جو رقم تکمیل مقصد کے بعد بچ رہے وہ چندہ دینے والوں کو لوٹا دی جائے یا کسی اور مصرف میں لانے کے لیے ان سے اجازت لے لی جائے مگر آج کے دور میں تو شریعت کا حکم ایک طرف اور طبیعت کا ایک طرف ترجیح تو طبیعت کو دی جاتی ہے پھر نیاز کی تیاری میں رات بھر جو شور شرابا ہوتا ہے سو الگ کئی مقامات پر تو لاؤڈ سپیکر اور میوزک سسٹم کا انتظام ہوتا ہے اہل محلہ کی نیندیں حرام ہوتی ہیں تو ہوں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا یاد رکھیں نیاز مستحب ہے اور ایذائے مسلم حرام مستحب پر عمل کریں مگر اس کے ساتھ حرام کو شامل نہ کریں کچھ تو خدا کا خوف کریں اور پھر تقسیم نیاز کا مسئلہ کہ جس میں لوگوں کی جانب سے دی گئی رقم کا خاص خیال رکھتے ہوئے تقسیم کو عمل میں لایا جاتا ہے اور جو کچھ نہ دے سکا اسے محروم کر دیا جاتا ہے میں کہتا ہوں جو کچھ نہ دے سکا اسے تو اوروں کی بنسبت زیادہ ہی دیجئے کیونکہ وہ زیادہ مستحق ہے نذر و نیاز میں زیادہ حق غرباء و مساکین کا ہے نا کہ امراء و اغنیاء کا مگر معاملہ اس کے بر عکس ہے۔
یہی وہ تمام صورتیں ہیں کہ بسا اوقات زبان حال سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں کہ یہ نیاز ہے یا تجارت؟
✍ محمد انعام الله رضوی سبحانی
9867328854
Comments
Post a Comment