ایک مخنث کا جذبہ ایثار اور قوم مسلم
ایک مخنث کا جذبہ ایثار اور قوم مسلم
از: محمد انعام الله رضوی سبحانی
5 جنوری 2019 دوپہر کے وقت چند ضروریات کے سبب محمد علی روڈ جانا ہوا بعد فراغت واپسی کے لیے مسجد اسٹیشن سے تھانہ کی سمت جانے والی دھیمی لوکل میں سوار ہوا اور کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ کر بیرونی مناظر اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے لگا ساتھ ہی میں ایک ہیجڑا بھی اسی ڈبے میں سوار ہوا اور میرے سامنے والی جانب سے اپنے مخصوص انداز میں تالیاں بجا کر لوگوں سے امداد طلب کرنے لگا ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ اچانک اس کے وہ ہاتھ جو لوگوں کے سامنے پھیلے ہوئے تھے وہ سمٹ گیے اور مانگنا موقوف کر کے وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا دروازے کے پاس آ کھڑا ہوا اور بڑے بے فکرے انداز میں بیرونی مناظر سے پر لطف ہونے لگا میں قدرے حیران ہوا کہ کیا بات ہے یہ لوگ تو پورے ڈبے کا چکر لگاتے ہیں اور ہر ایک کے پاس جا کر اور اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر پیسے مانگتے ہیں آج ایسی کیا بات ہوئی کہ ایک دو ہی پر بس۔
میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ اچانک گانے کی دھیمی سی آواز میرے کان کے پردوں سے ٹکرائی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نابینا اپنی چھڑی کو ٹرین کے فٹ بورڈ پر مخصوص انداز میں مارتے ہوئے اور موسیقی کی ایک دھن پیدا کرتے ہوئے گانا گا رہا تھا اور لوگوں سے سوال کر رہا تھا تھوڑی دیر تک تو یہ مجھے حسب معمول لگا مگر پھر میرا ماتھا ٹھنکا اور میری مذکورہ حیرانی فرو ہونے لگی جوں جوں میں سوچتا جا رہا تھا توں توں میرے سوال کا تشفی بخش جواب حاصل ہو رہا تھا تو یہ بات تھی کہ ہیجڑے نے اس نا بینا کی وجہ سے خود مانگنا موقوف کر دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ اس نابینا کی جھولی بھرے شاید یہ پہلا تجربہ تھا جب میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ اور ماتھے پہ شکن دونوں بیک وقت موجود تھے مسکراہٹ ہیجڑے کے جذبے کو دیکھ کر اور حیرانی اس بات کی کہ اس قوم میں یہ جذبہ جو کہ بے حیائی و بے غیرتی میں بدنام زمانہ ہے جنہیں قدر کی نگاہ سے شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو پھر جیسے جیسے میں اپنے ذہن کو جھنجھوڑتا رہا ویسے ویسے حیرت و استعجاب کے قعر عمیق میں گرتا گیا دل ہی دل میں اس ہیجڑے سے اپنی قوم کا موازنہ کر رہا تھا کہ خیر خلق میں جو خیر امت ہے کیا اس میں ایسا جذبہ ایثار و قربانی موجود ہے خاص کر اس جماعت میں جس کا میں بظاہر معلوم پڑتا ہوں جو آج میں نے ایک ہیجڑے میں مشاہدہ کیا ہےمیں خود ہی سوالات کرتا اور خود ہی جوابات تلاش کرتا یہ کشمکش بہت دیر تک رہی اور بالآخر میں نے خود کو یہ کہہ کر خاموش کر لیا کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے
لیکن معاملہ یہاں ختم تو نہیں ہو جاتا واقعی قوم مسلم میں آج جو مطلب پرستی اور خود غرضی شامل ہو گئی ہے وہ پوری ملت اور پوری قوم کے لیے باعث شرم اور ناسور ہے آج ہر ایک شخص صرف اپنے مطلب کی بات کرتا ہے صرف اپنے غرض کا سودا کرتا ہے کیا یہ وہی قوم ہے کیا یہ وہی مسلمان ہیں کہ جن کے نبی برحق صلی الله عليه وسلم نے فرمایا" لا یؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ" کہ تم سے کوئی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے مومن بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے کیا یہ وہی خیر امت ہے جسے "و تعاونوا" سے خطاب فرما کر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ عطا کیا گیا آپ کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں قوم مسلم کے ایثار کا معیار آپ کو اغیار کے معیار سے گرتا ہوا ہی نظر آئے گا میں نے مندرجہ بالا سطور میں ایک جماعت کی تخصیص کی تھی جس کا بظاہر میں معلوم پڑتا ہوں میری رائے کے مطابق خود غرضی کے خونخوار پنچے اس کے جبہ و دستار کو بھی تار تار کیے ہوئے ہیں نتیجہ علماء کا گرتا معیار، مابین عوام قدر و منزلت کی گراوٹ ،چند پھوٹی کوڑیوں کی تنخواہ ،لعن طعن کی شکار، وجہ مطلب پرستی و خود غرضی ایک امام جو عوام الناس کی پنج وقتہ نمازوں کا محافظ ہے پرخطر موسم، ضروریات و اہل و عیال کی ذمہ داریاں بھی مصلی امامت سے اس کے قدم کو روک نہیں سکتیں جو قوم کا رہبر و رہنما ہے لیکن اگر اس کی تنخواہ معلوم کی جائے تو وہی حسب روایت معدودے چند پھوٹی کوڑیاں اب اگر وہ نا اہل کمیٹی سے تنخواہ میں اضافہ کی بات کرے تو کرے کیسے کیونکہ وہ بھی جانتا ہے کہ اگر میں احتجاج کروں گا تو کمیٹی کو دو چند ایام ہی میں کسی خود غرض و مطلب پرست مولوی کی اس سے بھی کم تنخواہ میں رضا مندی کی درخواست موصول ہوگی یہی حال ہماری درسگاہوں کا ہے آج ہر شخص کو صرف اپنے مطلب سے مطلب ہے اپنے کسی بھی مومن بھائی کا لحاظ تو دور کی بات اپنے پڑوسی اپنے خاندان اور اپنے قریبی رشتہ دار یہاں تک کہ اپنے اہل خانہ تک کا خیال نہ رہا اس دور مقابلہ میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں اگر ملتے ہیں تو کسی مطلب سے ملتے ہیں کسی غرض سے ملتے ہیں تحفہ و تحائف کا لین دین جو کہ حدیث پاک کی روشنی میں محبت و مودت میں اضافہ کا سبب ہے وہ بھی خود غرضی کا آلہ کار بنتا ہوا نظر آ رہا ہے تحفہ و ہدیہ اسی کو پیش کیا جا رہا ہے جس سے کسی مقصد و غرض کی تکمیل ہونی ہے حالانکہ وہ اس قدر ضرورت مند نہیں ہوتا فضل الہی سے اس کا دامن پہلے ہی بھرا ہوتا ہے اور جو ضرورت مند ہے تحائف و ہدایا کا مستحق ہے وہ بے چارہ یوں ہی محروم رہ جاتا ہے کیوں کہ اس کی وہ حیثیت نہیں ہوتی ہے کہ کوئی اپنا غرض پورا کر سکے یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس کا پیٹ بھرا ہے اس کے سامنے انواع و اقسام کے پرتکلف اور لذیذ کھانے پیش کیے جا رہے ہیں اور بیچارہ جو بھوکا ہے کوئی اس کے سامنے سوکھی روٹی ڈالنے کو بھی تیار نہیں یہ کیا ہو گیا ہماری قوم کو کیوں کوئی شخص دوسروں کی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا کیوں ہماری قوم کے افراد ایک دوسرے کے لیے فکر مند نہیں ہوتے کیوں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ نہیں رکھتے یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ ایک دوسرے کا تعاون ہی ہماری ترقی کا ضامن ہے ہماری عظمت و کرامت، قدر و منزلت جاہ وحشمت، شان وشوکت، ہر قسم کی سرخروئی و سرفرازی کی کنجی ہے
آج ہمارے ادارے ایک دوسرے کے معاون نہیں ہماری تنظمیں ایک دوسرے کی معاون نہیں ہماری خانقاہیں ایک دوسرے کی معاون نہیں نتیجتا ہم رسوا ہیں ذلیل و خوار ہیں اس کے بر عکس اغیار کا ہر شعبہ ایک دوسرے کا معاون نظر آتا ہے اغیار کا ہر ادارہ ایک دوسرے کا مددگار نظر آتا ہے اغیار کا ہر فرد ایک دوسرے کا حامی و ناصر نظر آتا ہے موجودہ حکومت کے دور اقتدار کی ابتداء سے اب تک اس کی سینکڑوں مثالیں ہماری نظروں سے گزر چکی ہیں نتیجتا وہ ہم پر حکمراں ہیں ہماری معیشت، تجارت، طرز زندگی ان کی منشاء و مرضی کے تابع ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
اس مقام پر ہمیں غور و فکر کی ضرورت ہے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں جذبہ ایثار و قربانی پیدا کریں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں خود غرضی و مطلب پرستی سے توبہ کر لیں کم از کم اس مخنث کے جذبہ سے کچھ تو سبق لیں۔
✍ محمد انعام الله رضوی سبحانی
از: محمد انعام الله رضوی سبحانی
5 جنوری 2019 دوپہر کے وقت چند ضروریات کے سبب محمد علی روڈ جانا ہوا بعد فراغت واپسی کے لیے مسجد اسٹیشن سے تھانہ کی سمت جانے والی دھیمی لوکل میں سوار ہوا اور کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ کر بیرونی مناظر اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے لگا ساتھ ہی میں ایک ہیجڑا بھی اسی ڈبے میں سوار ہوا اور میرے سامنے والی جانب سے اپنے مخصوص انداز میں تالیاں بجا کر لوگوں سے امداد طلب کرنے لگا ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ اچانک اس کے وہ ہاتھ جو لوگوں کے سامنے پھیلے ہوئے تھے وہ سمٹ گیے اور مانگنا موقوف کر کے وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا دروازے کے پاس آ کھڑا ہوا اور بڑے بے فکرے انداز میں بیرونی مناظر سے پر لطف ہونے لگا میں قدرے حیران ہوا کہ کیا بات ہے یہ لوگ تو پورے ڈبے کا چکر لگاتے ہیں اور ہر ایک کے پاس جا کر اور اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر پیسے مانگتے ہیں آج ایسی کیا بات ہوئی کہ ایک دو ہی پر بس۔
میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ اچانک گانے کی دھیمی سی آواز میرے کان کے پردوں سے ٹکرائی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نابینا اپنی چھڑی کو ٹرین کے فٹ بورڈ پر مخصوص انداز میں مارتے ہوئے اور موسیقی کی ایک دھن پیدا کرتے ہوئے گانا گا رہا تھا اور لوگوں سے سوال کر رہا تھا تھوڑی دیر تک تو یہ مجھے حسب معمول لگا مگر پھر میرا ماتھا ٹھنکا اور میری مذکورہ حیرانی فرو ہونے لگی جوں جوں میں سوچتا جا رہا تھا توں توں میرے سوال کا تشفی بخش جواب حاصل ہو رہا تھا تو یہ بات تھی کہ ہیجڑے نے اس نا بینا کی وجہ سے خود مانگنا موقوف کر دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ اس نابینا کی جھولی بھرے شاید یہ پہلا تجربہ تھا جب میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ اور ماتھے پہ شکن دونوں بیک وقت موجود تھے مسکراہٹ ہیجڑے کے جذبے کو دیکھ کر اور حیرانی اس بات کی کہ اس قوم میں یہ جذبہ جو کہ بے حیائی و بے غیرتی میں بدنام زمانہ ہے جنہیں قدر کی نگاہ سے شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو پھر جیسے جیسے میں اپنے ذہن کو جھنجھوڑتا رہا ویسے ویسے حیرت و استعجاب کے قعر عمیق میں گرتا گیا دل ہی دل میں اس ہیجڑے سے اپنی قوم کا موازنہ کر رہا تھا کہ خیر خلق میں جو خیر امت ہے کیا اس میں ایسا جذبہ ایثار و قربانی موجود ہے خاص کر اس جماعت میں جس کا میں بظاہر معلوم پڑتا ہوں جو آج میں نے ایک ہیجڑے میں مشاہدہ کیا ہےمیں خود ہی سوالات کرتا اور خود ہی جوابات تلاش کرتا یہ کشمکش بہت دیر تک رہی اور بالآخر میں نے خود کو یہ کہہ کر خاموش کر لیا کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے
لیکن معاملہ یہاں ختم تو نہیں ہو جاتا واقعی قوم مسلم میں آج جو مطلب پرستی اور خود غرضی شامل ہو گئی ہے وہ پوری ملت اور پوری قوم کے لیے باعث شرم اور ناسور ہے آج ہر ایک شخص صرف اپنے مطلب کی بات کرتا ہے صرف اپنے غرض کا سودا کرتا ہے کیا یہ وہی قوم ہے کیا یہ وہی مسلمان ہیں کہ جن کے نبی برحق صلی الله عليه وسلم نے فرمایا" لا یؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ" کہ تم سے کوئی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے مومن بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے کیا یہ وہی خیر امت ہے جسے "و تعاونوا" سے خطاب فرما کر ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ عطا کیا گیا آپ کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں قوم مسلم کے ایثار کا معیار آپ کو اغیار کے معیار سے گرتا ہوا ہی نظر آئے گا میں نے مندرجہ بالا سطور میں ایک جماعت کی تخصیص کی تھی جس کا بظاہر میں معلوم پڑتا ہوں میری رائے کے مطابق خود غرضی کے خونخوار پنچے اس کے جبہ و دستار کو بھی تار تار کیے ہوئے ہیں نتیجہ علماء کا گرتا معیار، مابین عوام قدر و منزلت کی گراوٹ ،چند پھوٹی کوڑیوں کی تنخواہ ،لعن طعن کی شکار، وجہ مطلب پرستی و خود غرضی ایک امام جو عوام الناس کی پنج وقتہ نمازوں کا محافظ ہے پرخطر موسم، ضروریات و اہل و عیال کی ذمہ داریاں بھی مصلی امامت سے اس کے قدم کو روک نہیں سکتیں جو قوم کا رہبر و رہنما ہے لیکن اگر اس کی تنخواہ معلوم کی جائے تو وہی حسب روایت معدودے چند پھوٹی کوڑیاں اب اگر وہ نا اہل کمیٹی سے تنخواہ میں اضافہ کی بات کرے تو کرے کیسے کیونکہ وہ بھی جانتا ہے کہ اگر میں احتجاج کروں گا تو کمیٹی کو دو چند ایام ہی میں کسی خود غرض و مطلب پرست مولوی کی اس سے بھی کم تنخواہ میں رضا مندی کی درخواست موصول ہوگی یہی حال ہماری درسگاہوں کا ہے آج ہر شخص کو صرف اپنے مطلب سے مطلب ہے اپنے کسی بھی مومن بھائی کا لحاظ تو دور کی بات اپنے پڑوسی اپنے خاندان اور اپنے قریبی رشتہ دار یہاں تک کہ اپنے اہل خانہ تک کا خیال نہ رہا اس دور مقابلہ میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں اگر ملتے ہیں تو کسی مطلب سے ملتے ہیں کسی غرض سے ملتے ہیں تحفہ و تحائف کا لین دین جو کہ حدیث پاک کی روشنی میں محبت و مودت میں اضافہ کا سبب ہے وہ بھی خود غرضی کا آلہ کار بنتا ہوا نظر آ رہا ہے تحفہ و ہدیہ اسی کو پیش کیا جا رہا ہے جس سے کسی مقصد و غرض کی تکمیل ہونی ہے حالانکہ وہ اس قدر ضرورت مند نہیں ہوتا فضل الہی سے اس کا دامن پہلے ہی بھرا ہوتا ہے اور جو ضرورت مند ہے تحائف و ہدایا کا مستحق ہے وہ بے چارہ یوں ہی محروم رہ جاتا ہے کیوں کہ اس کی وہ حیثیت نہیں ہوتی ہے کہ کوئی اپنا غرض پورا کر سکے یہ تو وہی بات ہوئی کہ جس کا پیٹ بھرا ہے اس کے سامنے انواع و اقسام کے پرتکلف اور لذیذ کھانے پیش کیے جا رہے ہیں اور بیچارہ جو بھوکا ہے کوئی اس کے سامنے سوکھی روٹی ڈالنے کو بھی تیار نہیں یہ کیا ہو گیا ہماری قوم کو کیوں کوئی شخص دوسروں کی ضرورتوں کو نہیں سمجھتا کیوں ہماری قوم کے افراد ایک دوسرے کے لیے فکر مند نہیں ہوتے کیوں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ نہیں رکھتے یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ ایک دوسرے کا تعاون ہی ہماری ترقی کا ضامن ہے ہماری عظمت و کرامت، قدر و منزلت جاہ وحشمت، شان وشوکت، ہر قسم کی سرخروئی و سرفرازی کی کنجی ہے
آج ہمارے ادارے ایک دوسرے کے معاون نہیں ہماری تنظمیں ایک دوسرے کی معاون نہیں ہماری خانقاہیں ایک دوسرے کی معاون نہیں نتیجتا ہم رسوا ہیں ذلیل و خوار ہیں اس کے بر عکس اغیار کا ہر شعبہ ایک دوسرے کا معاون نظر آتا ہے اغیار کا ہر ادارہ ایک دوسرے کا مددگار نظر آتا ہے اغیار کا ہر فرد ایک دوسرے کا حامی و ناصر نظر آتا ہے موجودہ حکومت کے دور اقتدار کی ابتداء سے اب تک اس کی سینکڑوں مثالیں ہماری نظروں سے گزر چکی ہیں نتیجتا وہ ہم پر حکمراں ہیں ہماری معیشت، تجارت، طرز زندگی ان کی منشاء و مرضی کے تابع ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
اس مقام پر ہمیں غور و فکر کی ضرورت ہے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں جذبہ ایثار و قربانی پیدا کریں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں خود غرضی و مطلب پرستی سے توبہ کر لیں کم از کم اس مخنث کے جذبہ سے کچھ تو سبق لیں۔
✍ محمد انعام الله رضوی سبحانی
Comments
Post a Comment