اپریل فول منانا کیسا ہے
Azmat Ansari:
*یکم اپریل کو اپریل فول منانا*
یکم اپریل کے قریب ہونے کے پیش نظر دوبارہ بھیج رہا ہوں. تاکہ عمل کرنے اور امت کی رہنمائی کرنے میں اسانی ہو.
★ اپریل فول” کی رسم مغرب سے ہمارے یہاں آئی ہے اور یہ بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اول:…اس دن صریح جھوٹ بولنے کو لوگ جائز سمجھتے ہیں، *جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کو بولا جائے تو گناہِ کبیرہ ہے اور اگر اس کو حلال اور جائز سمجھ کر بولا جائے تو اندیشہ کفر ہے۔* جھوٹ کی برائی اور مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم نے “لعنت الله علی الکاذبین” فرمایا ہے، گویا جو لوگ “اپریل فول” مناتے ہیں وہ قرآن میں ملعون ٹھہرائے گئے ہیں، اور ان پر خدا تعالیٰ کی، رسولوں کی، فرشتوں کی، انسانوں کی اور ساری مخلوق کی لعنت ہے۔
دوم:…اس میں خیانت کا بھی گناہ ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
“کبرت خیانة ان تحدث اخاک حدیثاً ھو لک مصدق وانت بہ کاذب۔ رواہ ابوداود۔” (مشکوٰة ص:۴۱۳)
ترجمہ:…”بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھے، حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔” اور خیانت کا کبیرہ گناہ ہونا بالکل ظاہر ہے۔
سوم:…اس میں دوسرے کو دھوکا دینا ہے یہ بھی گناہ کبیرہ ہے، حدیث میں ہے: “من غش فلیس منا۔” (مشکوٰة ص:۳۰۵) ترجمہ:…”جو شخص ہمیں (یعنی مسلمانوں کو) دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔”
چہارم:…اس میں مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ہے، یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے، قرآن کریم میں ہے: “بے شک جو لوگ ناحق ایذا پہنچاتے ہیں مومن مردوں اور عورتوں کو، انہوں نے بہتان اور بڑا گناہ اٹھایا۔”
پنجم:…اپریل فول منانا گمراہ اور بے دین قوموں کی مشابہت ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “من تشبہ بقوم فھو منھم۔” “جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہوگا۔” پس جو لوگ فیشن کے طور پر اپریل فول مناتے ہیں ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ قیامت کے دن یہود و نصاریٰ کی صف میں اٹھائے جائیں۔ جب یہ اتنے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے تو جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے معمولی عقل بھی دی ہو وہ انگریزوں کی اندھی تقلید میں اس کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ اس لئے تمام مسلمان بھائیوں کو نہ صرف اس سے توبہ کرنی چاہئے بلکہ مسلمانوں کے مقتدا لوگوں کا فرض ہے کہ “اپریل فول” پر قانونی پابندی کا مطالبہ کریں اور ہمارے مسلمان حکام کا فرض ہے کہ اس باطل رسم کو سختی سے روکیں۔
یکم اپریل کو اپریل فول منانا مغرب کی اندھی تقلید کے شوق میں ہمارے معاشرے میں جن رسموں کو رواج دیا گیا ان میں سے ایک اپریل فول ہے، اس میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دینا اور دھوکہ دیکر کسی کو بیوقوف بنانا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے اور قابل تعریف اور یکم اپریل سے فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے، نہ جانے کتنے افراد کو بلا وجہ جانی و مالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات لوگوں کی جانیں چلی گئی ہے کہ انھیں کسی ایسے صدمے کی جھوٹی خبر سنا دی گئی جسے سننے کی وہ تاب نہ لا سکے اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔ اس رسم کے سلسلہ میں مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہودیوں و عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کو تمسخر و استہزا کا نشانہ بنایا گیا،، موجودہ نام نہاد انجیلوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اس کے علاوہ اور بھی باتیں اس طرح کی کتابوں میں لکھی ہے جس کی بنا پر اس تاریخ کو لوگوں کو دھوکہ دینے وجھوٹ و تکلیف دینے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ رسم جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، دوسرے کو اذیت پہنچانا، دشمنان اسلام کی پیروی جیسے بد ترین گناہوں کا مجموعہ ہے اسلئے *شرعا یہ ناجائز و حرام* ہے۔
{از حوالہ بالا، آپ کے مسائل اور ان کا حل ودیگر کتب العبد
*یکم اپریل کو اپریل فول منانا*
یکم اپریل کے قریب ہونے کے پیش نظر دوبارہ بھیج رہا ہوں. تاکہ عمل کرنے اور امت کی رہنمائی کرنے میں اسانی ہو.
★ اپریل فول” کی رسم مغرب سے ہمارے یہاں آئی ہے اور یہ بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اول:…اس دن صریح جھوٹ بولنے کو لوگ جائز سمجھتے ہیں، *جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کو بولا جائے تو گناہِ کبیرہ ہے اور اگر اس کو حلال اور جائز سمجھ کر بولا جائے تو اندیشہ کفر ہے۔* جھوٹ کی برائی اور مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم نے “لعنت الله علی الکاذبین” فرمایا ہے، گویا جو لوگ “اپریل فول” مناتے ہیں وہ قرآن میں ملعون ٹھہرائے گئے ہیں، اور ان پر خدا تعالیٰ کی، رسولوں کی، فرشتوں کی، انسانوں کی اور ساری مخلوق کی لعنت ہے۔
دوم:…اس میں خیانت کا بھی گناہ ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
“کبرت خیانة ان تحدث اخاک حدیثاً ھو لک مصدق وانت بہ کاذب۔ رواہ ابوداود۔” (مشکوٰة ص:۴۱۳)
ترجمہ:…”بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایک بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھے، حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔” اور خیانت کا کبیرہ گناہ ہونا بالکل ظاہر ہے۔
سوم:…اس میں دوسرے کو دھوکا دینا ہے یہ بھی گناہ کبیرہ ہے، حدیث میں ہے: “من غش فلیس منا۔” (مشکوٰة ص:۳۰۵) ترجمہ:…”جو شخص ہمیں (یعنی مسلمانوں کو) دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔”
چہارم:…اس میں مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ہے، یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے، قرآن کریم میں ہے: “بے شک جو لوگ ناحق ایذا پہنچاتے ہیں مومن مردوں اور عورتوں کو، انہوں نے بہتان اور بڑا گناہ اٹھایا۔”
پنجم:…اپریل فول منانا گمراہ اور بے دین قوموں کی مشابہت ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “من تشبہ بقوم فھو منھم۔” “جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہوگا۔” پس جو لوگ فیشن کے طور پر اپریل فول مناتے ہیں ان کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ قیامت کے دن یہود و نصاریٰ کی صف میں اٹھائے جائیں۔ جب یہ اتنے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے تو جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے معمولی عقل بھی دی ہو وہ انگریزوں کی اندھی تقلید میں اس کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ اس لئے تمام مسلمان بھائیوں کو نہ صرف اس سے توبہ کرنی چاہئے بلکہ مسلمانوں کے مقتدا لوگوں کا فرض ہے کہ “اپریل فول” پر قانونی پابندی کا مطالبہ کریں اور ہمارے مسلمان حکام کا فرض ہے کہ اس باطل رسم کو سختی سے روکیں۔
یکم اپریل کو اپریل فول منانا مغرب کی اندھی تقلید کے شوق میں ہمارے معاشرے میں جن رسموں کو رواج دیا گیا ان میں سے ایک اپریل فول ہے، اس میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دینا اور دھوکہ دیکر کسی کو بیوقوف بنانا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے اور قابل تعریف اور یکم اپریل سے فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے، نہ جانے کتنے افراد کو بلا وجہ جانی و مالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات لوگوں کی جانیں چلی گئی ہے کہ انھیں کسی ایسے صدمے کی جھوٹی خبر سنا دی گئی جسے سننے کی وہ تاب نہ لا سکے اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔ اس رسم کے سلسلہ میں مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہودیوں و عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کو تمسخر و استہزا کا نشانہ بنایا گیا،، موجودہ نام نہاد انجیلوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اس کے علاوہ اور بھی باتیں اس طرح کی کتابوں میں لکھی ہے جس کی بنا پر اس تاریخ کو لوگوں کو دھوکہ دینے وجھوٹ و تکلیف دینے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ رسم جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، دوسرے کو اذیت پہنچانا، دشمنان اسلام کی پیروی جیسے بد ترین گناہوں کا مجموعہ ہے اسلئے *شرعا یہ ناجائز و حرام* ہے۔
{از حوالہ بالا، آپ کے مسائل اور ان کا حل ودیگر کتب العبد
Comments
Post a Comment