Ustaad kiyon maarta hai
میرے ٹیچر نے ایک دن مجھے بہت مارا، میں نے دل میں انہیں جتنی گالیاں دے سکتا تھا، دیں، ارادہ کیا کہ جب بھی زرا بڑا ہوا تو انہیں قتل کر دو ں گا، لیکن وہ مجھے سکھا گئے، ایک دن ملے، سائیکل پر تھے، کافی بزرگ ہو چکے تھے، ان کے پاؤں شوگر کی وجہ سے سوجے رہتے، کبھی کبھی بنا جوتوں کے سائیکل چلاتے، مجھے دیکھتے ہی بولے: رضوان!!!
میں گاڑی سے بھاگ کر اترا، بڑے خوش ہوے مجھے دیکھ کر، ایک دم ہاتھ جوڑ کر کم زور آواز میں بولے: یار! مجھے معاف کر دینا، تجھے بہت مارتا تھا۔
پر اس لیے مارتا تھا کہ تم کچھ بن جاؤ اور آج تمہیں کسی مقام پر دیکھ کر رو پڑا ہوں کہ میرا شاگرد آج بڑی گاڑی میں بیٹھا ہے۔
بیٹا! تم میری خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے، اور رو پڑے۔
میرے سینے پر گھونسا لگا، تڑپ کر انہیں سینے سے لگا لیا، سارا روڈ یہ منظر دیکھ رہا تھا، پھر ان کے پاؤں چومے۔
ہم دونوں استاد شاگرد گلے لگ کر روتے رہے۔
عجب سی مہک تھی، ان کے سینے سے آتی، مجھے ان کی چھاتی میں سکون محسوس ہو رہا تھا، ابدی سکون۔
جس جس راہ چلتے بندے کو پتہ چلا، وہ بھی رو پڑا استاد شاگرد کا پیار دیکھ کر۔
بات یہ ہے کہ آپ اچھے نمبرز نہ بھی لیں، اچھے گریڈز نہ بھی لیں، صرف اپنے ٹیچر کا ادب کریں تو اجر ٹیچر نہیں، اللہ دیتا ہے۔
مجھے یہ ملاقات کبھی نہیں بھول سکتی، مجھے تراشنے والے وہی تو تھے، میں اک گمنام، بےشکل پتھر تھا۔
اس لیے جتنا ہو سکے، صرف استاد کے احترام کو ترجیح دیں اور یہی فقط کامیابی کی سیڑھی ہے۔
منقول.......
Comments
Post a Comment