Allah ke elawah kisi ko maula kahna kaisa hai
فإن مولاكم الله عز وجل (غلام اپنے آقا کو مولیٰ نہ کہے ۔۔۔ کیونکہ تمہارا مولیٰ اللہ عز وجل ہے ۔)
صحیح مسلم ، كتاب الالفاظ من الادب ، باب : حكم اطلاق لفظة العبد والامة والمولى والسيد ان تمام آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے صراحتاً یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ حقیقی ”مولیٰ“ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ وہی کامل و اکمل مولیٰ ہے‘ لیکن اس کے باوجود قرآن و حدیث میں مولیٰ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں پر بھی کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے اللہ کے علاوہ دوسروں کو مولٰی ”مولانا“ کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے‘لہٰذا مندرجہ بالا قرآن و حدیث کے دلائل سے صراحتاً ثابت ہوا کہ لفظ مولیٰ کا استعمال رب، آقا، مالک، مددگار (مافوق الاسباب) کے معنوں میں صرف اور صرف الله وحده لا شريک له کے لیے لائق و زیبا ہے۔ اور ان معنوں میں مخلوق کے لیے اس لفظ کا استعمال شرک ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اولیاء اللہ یا صالحین کے لیے آقا و مولیٰ کا استعمال رب‘ مالک‘ مدد گار‘ کارساز‘ کے معنیٰ میں نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ مخلوق کے لیے مولیٰ کا استعمال صرف دوست، غلام یا ماتحت الاسباب مددگار کے معنوں میں ہی کرنا درست ہے بے شک حقیقی مولیٰ اللہ تعالیٰ ہے‘ اور کمال ولایت اسی کو زیبا ہے‘ جس معنی میں اللہ تعالیٰ کو ”مولیٰ“ کہا جاتا ہے‘ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو ”مولیٰ“ یا ”مولانا“ کہنا جائز نہیں‘ لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے غیر اللہ کو مولیٰ کہنا جائز ہے
===================
علیؓ مولىٰ کا صحیح مطلب :
علم اللغة والنحو والأدب والانساب کے امام محمد بن زیاد ابن الاعرابی ابو عبدالله الہاشمی رح (١٥٠-٢٣١ ہجری) فرماتے ہیں :
"چچازاد، آزاد کرنے والے، آزاد ہونے والے، کاروباری ساجھی، معاہدہ کرنے والے، محبت کرنے والے، با اثر اور دوست سب کو ((مولىٰ)) کہتے ہیں. نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((من كنت مولاه فعلي مولاه)) ترجمہ : "جس کا میں دوست ہوں اس کا علیؓ بھی دوست ہے" . یعنی جو مجھ سے محبت رکھتا ہے، وہ حضرت علیؓ سے بھی محبت رکھے، ثعلب کہتے ہیں : رافضیوں (شیعہ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ سیدنا علیؓ پوری مخلوق کے مولا یعنی مالک ہیں، اس معاملہ میں رافضی لوگ کفر کے مرتکب ہوۓ ہیں، یہ بات تو عقلی اعتبار سے بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ سیدنا علیؓ خرید و فروخت کرتے تھے، جب تمام چیزیں ان کی ملکیت تھیں تو خرید و فروخت کیسی ؟؟؟ مذکورہ حدیث میں لفظ مولا، محبت اور دوستی کے باب سے ہیں.[تاریخ دمشق، لامام ابن عساکر : ٤٢/٢٣٨، وسندہ صحیح]
Comments
Post a Comment